20 نومبر ، 2021
(گزشتہ سے پیوستہ)
یوں بطور صحافی میری کوشش تھی کہ میں عمران خان کو دیگر سیاستدانوں کی طرح اصل روپ میں عوام کے سامنے لائوں اور پھر فیصلہ ان پر چھوڑ دوں ۔
میرا ارادہ تھا کہ جس دن عوام ان کو اسی طرح جان لیں گے جس طرح نواز شریف اور زرداری کو جانتے ہیں تو میں ان سے متعلق خصوصی تنقید کرناچھوڑ دوں گا لیکن افسوس کہ میں اس میں کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ ہر ادارے کو ان کے حق میں ایسے استعمال کیا گیا کہ ہم جیسے چند لوگوں کی آواز نقارخانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوئی۔ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ اقتدار میں آنے کےبعد دھیرے دھیرے ان کی حقیقت بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح عوام پر واضح ہورہی ہے۔
عمران خان کو ان کے حامی تو کیا بعض مخالفین بھی سیدھا سادہ انسان سمجھ رہے تھے اور ایک بڑی تعداد اب بھی سمجھ رہی ہے لیکن میں ان کے سیاست میں آنے کے دن سے انہیں نہایت ذہین اور شاطر انسان سمجھتا ہوں۔ ذہین ، دانشمند یا پھر اسٹیٹس مین کے پیرائے میں نہیں بلکہ اپنی ذات کے لیے ذہین۔ میں نے محسوس کیا کہ عمران خان اپنی ذات سے متعلق دل کی بجائے عقل کی بنیاد پرفیصلے کرتے ہیں۔
مثلاً انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کرکٹ ورلڈ کپ کے سلسلے میں پوری ٹیم کی جیت کو اپنی جیت بنا یا ۔ پھر ورلڈ کپ کو شوکت خانم کے لیے اور پھر شوکت خانم کو سیاسی جماعت بنانے کے لیے استعمال کیا۔ میری اس رائے کی پختگی کے پیچھے ایک نہیں سینکڑوں واقعات ہیں لیکن وہ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق ہیں اور میں ذاتی معاملات کا میڈیا میں کبھی ذکر نہیں کرتا ۔یوں میری یہ سوچ بن گئی تھی کہ اگر ایک شخص دل کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا تو وہ کیوں کر ملک کا درد دل میں سموسکتا ہے۔
یہ تو رہا عمران خان سے متعلق میری تنقید کا پس منظر لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا معاملہ میری صحافتی زندگی کا سب سے مشکل اور صبر آزما مرحلہ رہا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ عمران خان ایک سلیبرٹی اور سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والے لیڈر تھے۔ ملک کے لاکھوں نوجوان ان کو مسیحا سمجھ رہے تھے ۔
اب ایک میڈیا پرسن، جو ٹی وی پر بھی پروگرام کی میزبانی کرتا ہو،کے پروگرام میں اگر ملک کا سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والا لیڈر آنے سے انکاری ہو (عمران خان نے 2012میں مجھے ایک بار انٹرویو دیا اور اس کے بعد میرے سامنے بیٹھنے کا کبھی رسک نہیں لیا) تو میڈیا پرسن جانتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی قیمت ہے؟ دوسری طرف 2011سے میں ان کے چاہنے والوں کی گالیاں برداشت کررہا ہوں ۔
پی ٹی آئی نے برطانیہ، امریکہ اور سنگاپور میں سوشل میڈیا کے مختلف سیٹ اپ بنا رکھے تھے جو مسلسل میری کردارکشی میں لگے رہے ۔ ملک کے اندر بھی اسد عمر ، عارف علوی، جہانگیر ترین، علیم خان، عثمان ڈار اور خود عمران خان کے الگ الگ سیٹ اپ تھے اور ان سب کی خصوصی نظر اس عاجز پر رہی ۔ حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد حکومتی وسائل بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہونے لگے ۔
اسی طرح اسٹیبلشمنٹ جس طرح عمران خان کی حمایت کرنے والے میڈیا پرسنز کی سرپرستی کرتی رہی، اسی طرح ہم جیسے لوگ اس کے ناپسندیدہ تھے ۔ میرے لیے ایک اور بڑی آزمائش یہ تھی کہ ہمارے طبقے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر سیاسی دوستوں کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے تھا۔ عمران خان کے دبائو پر کئی ایک نے مجھے چھوڑ دیا اور کچھ کو مجھے الوداع کہنا پڑا کیونکہ دوسرے سیاسی لیڈروں کے برعکس عمران خان ذاتی اور سیاسی تعلق کو الگ الگ رکھنے کے قائل نہیں ۔
بہر حال ہم جیسے قلم کے مزدوروں کی چیخ و پکار کے باوجود عدلیہ، میڈیا، نیب اور الیکشن کمیشن کو بری طرح استعمال کرکے عمران خان کو وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ ان کی وزارت عظمیٰ پاکستان کے لیے بڑی آزمائش ثابت ہوئی لیکن میں عمران خان کا مشکور ہوں کہ اپنی طرز حکمرانی کے ذریعے انہوں نے مجھے سرخرو کیا ۔ تاہم سرخروئی کے باوجود میں خوش نہیں کیونکہ یہ تبدیلی کم و بیش ہر حوالے سے الٹی پڑ گئی ہے ۔
عمران خان کو اس امید کے ساتھ وزیراعظم بنایا گیا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر کریں گے لیکن جی ڈی پی گروتھ جو ان کے وزیراعظم بننے سے قبل پانچ فی صد سالانہ سے زیادہ تھی ، ایک فی صد پر آگئی۔ 2019-20کے مالی سال کے دوران یہ شرح افغانستان سے بھی کم رہی جبکہ اس سال مہنگائی کی شرح افغانستان سے زیادہ رہی ۔
توقع یہ تھی کہ وہ پاکستان کو سنگاپور یا ملائیشیا بنا دیں گے لیکن معاشی لحاظ سے الٹا انہوں نے افغانستان بنا دیا۔امید لگائی گئی تھی کہ وہ خارجہ محاذ پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیں گے لیکن معاملہ الٹ ہوگیا ۔ چین کو ناراض کیا لیکن امریکہ کو بھی اپنا ہمنوا نہ بناسکے ۔
سعودی عرب کو ناراض کیا لیکن ترکی و ایران کو بھی پوری طرح اپنا نہ بناسکے ۔ انہیں اس امید کے ساتھ وزیراعظم بنا یا گیا تھا کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست کا خاتمہ کردیں گے لیکن انہوں نے ان دونوں کے گناہ بخشوا دیے اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ عمران خان نے ان کی سیاست کو ختم کرنے کی بجائے الٹا زندہ کردی ہے۔ یہ توقع تھی کہ وہ قوم کو متحد کریں گے لیکن ان کے دور میں سیاست بدرجہ اتم نفرت اور پولرائزیشن کی شکار ہوگئی۔ توقع تھی کہ وہ میڈیا کو مضبوط بنائیں گے لیکن ان کے دور میں میڈیا کو معاشی لحاظ سے کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ سنسرشپ کے ذریعے عوام کی نظروں میں بے وقعت کردیا گیا ۔
چونکہ ہر حوالے سے معاملہ الٹ ہوگیا ہے ، اس لیے اس کتاب کا نام ”اور تبدیلی الٹی پڑگئی“ رکھا گیا ہے ۔ اس سے قبل میری جو کتاب ”اور تبدیلی لائی گئی ۔۔۔“ شائع ہوئی ہے، اس میں الیکشن سے قبل کے دور کے عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق کالم جمع کئے گئے“۔
یہ اقتباس میری نئی کتاب ”اور تبدیلی الٹی پڑ گئی۔۔۔“ سے لیا گیا ہے جو تین ماہ قبل پرنٹنگ کے لیے بھجوائی گئی۔ حسنِ اتفاق سے یہ کتاب عین اس وقت منظر عام پر آئی جب ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا تنازعہ زوروں پر تھا۔ غریب عوام کو تو پہلے ہی احساس ہو چکا تھا کہ تبدیلی الٹی بلکہ ان کے گلے پڑ گئی لیکن نوٹیفیکیشن کے معاملے پر اس بلاجواز تنازعہ کی وجہ سے یہ تاثر عام ہونے لگا کہ یہ تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کے بھی گلے پڑگئی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔