07 دسمبر ، 2021
سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے سابق جج شوکت صدیقی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ شوکت صدیقی نے حدود سے تجاوز کیا، تقریرعدلیہ کے خلاف کی، فوج کے خلاف کرتے تو پتا چل جاتا ان کا کتنا زور ہے۔
سپریم کورٹ میں سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت وکیل حامدخان نے شوکت عزیزصدیقی کے خلاف ریفرنسز کی تفصیل پیش کی اور کہا کہ شوکت صدیقی نے ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کرنے پر جنرل کے دستخط پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔
اس پر جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ جس فیصلے کے ساتھ تعلق جوڑ رہے ہیں، اس پرسپریم جوڈیشل کونسل نے دو نوٹس جاری کیے تھے، شوکت صدیقی نے حاضر سروس افسران پر آبزرویشنزبغیر نوٹس کے دیں، فاضل جج نے کس طرح اپنے اختیار سے تجاوز کیا؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی نے حدود سے تجاوز کیا، تقریرعدلیہ کے خلاف کی، فوج کے خلاف کرتے تو پتا چل جاتا ان کا کتنا زور ہے۔
اس دوران جسٹس سردار طارق نے کہا کہ جب آرمی اور اس کے حاضر سروس افسران کے خلاف شکایت نہیں تھی تو کیا جج نے ازخود نوٹس لیا؟ کیا ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جج کی بار یا پبلک فورم پر تقریر حدود و قیود میں ہوتی ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ آئین کسی جج کو نکالنے سے پہلے انکوائری لازم قراردیتا ہے، آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت الزامات کی انکوائری ضروری ہے، بغیر انکوائری جج کو نکالنے کی مثال بن گئی تو کسی بھی جج کو کسی بھی بنیاد پر کبھی بھی برطرف کر دیا جائے گا۔
اعلیٰ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔