Time 17 دسمبر ، 2021
بلاگ

مستحکم رشتے کیسے بنتے ہیں؟

ویسے تو بھرے پرے گھر میں رہ کر بھی کوئی عادتاً خودکو اکیلا اور تنہا سمجھتا ہے۔ یہ الگ نفسیاتی مسئلہ ہے مگر بچوں کو بڑا کرنے، شادی شدہ کرنے کے بعد، اکثر ماں باپ خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ مرد یا عورت پہلے مر جاتے ہیں۔ تو پیچھے رہ جانے والا فرد، خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔

 کچھ لوگ خاندان کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ مجبوراً شادی نہیں کرتے ذمہ داریوں سے آزاد ہوں تو عمر کے اس درجے پر پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ جب شادی کرنے کا موڈ ہی نہیں رہتا۔ یا کسی بیوہ سے شادی کرنا بھی عیب سمجھتے ہیں۔ یہی حال ان کام کرنےوالی خواتین کا ہوتا ہے جو ساری خاندانی ذمہ داریوں سے فراغت پا کر شادی کرنا بھی چاہیں تو ہو ہی نہیں سکتی، ایسے اکیلے رہ جانے والے خواتین و حضرات اگر مغربی ممالک میں ہوں تو مزاج مل جائیں تو جوانی ہو کہ بڑھاپا اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

 ہمارے مشرقی اور اسلامی معاشرے میں ایسا کوئی کر بھی لے تو لوگ اس کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ مغرب میں اکیلے رہ جانے والے لوگ خاص کر مرد (ویسے ہمارے ملک میں بھی) شطرنج کھیلتے ہیں۔ چند دوستوں کے ساتھ مل کر سیاحتی پروگرام یا فلم دیکھ آتے ہیں۔ کچھ لوگ کمپیوٹر گیمز، چٹ چیٹ، سوشل میڈیا، یا پھر مجبوراً ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دن گزارتے ہیں۔ خواتین پاکستان میں نانی، دادی بن کر ان کے بچوں کو سنبھالتی یا کبھی ان کے گھر ایک آدھ دن کو رہ آتی ہیں۔

آج کل کے زمانے میں جب عورتیں اور مرد، دونوں ہی اکثر نوکری کرتے ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد اکثر لوگ ریٹائرمنٹ فنڈ سے اپنے لئے گھر بناتے ہیں۔ گاؤں ہو کہ شہر منڈلیوں، گروپوں کی شکل میں یا پھر کسی باغ میں گھومتے ہیں اور پھر سارے زمانے کی سیاست پر بحث کرکے گھر چلے جاتے ہیں۔ خواتین بھی اسی طرح کمپیوٹر یا فون پر گھنٹوں باتیں کرکے وقت گزار لیتی ہیں۔ 

پہلے زمانے میں دوستوں، رشتہ داروں کو خط لکھے جاتے تھے، اس میں ہی کافی مصروفیت پیدا ہو جاتی تھی۔ بعدازاں یہ ہونے لگا ہےکہ چھٹی کے دن بچوں سمیت اولادیں، والدین کے گھر آجاتی ہیں۔ ایک شام اکٹھے گزر جاتی ہے۔ مغرب میں اگر ایسا موقع ہو تو سب مل کر برتن دھو کر، کمرہ صاف کرکے، گھروں کو چلے جاتے ہیں مگر ایسے واقعات میں بھی ماں باپ دونوں زندہ ہوں تو یہ ممکن ہوتا ہے۔ ورنہ گھر کا ٹی وی شخص بن جاتا ہے۔ لگتا ہے کوئی تو گھر میں بول رہا ہے۔ لکھنے پڑھنے والے لوگ کسی کمپنی کے محتاج نہیں ہوتے۔

مغرب میں ہر علاقے میں رضا کارانہ گروپ ہیں جو اپنے علاقے میں تنہا رہنے اور بیمار لوگوں کو سیر کیلئے بھی لے کر جاتے اور ان کے گھر میں ضرورت کے مطابق کام کرلیتے ہیں۔ چین، جاپان اور کوریا میں بڑے بڑے باغ یا ہال ہیں جہاں بوڑھے عورت اور مرد اکٹھے کرکے لائے جاتے ہیں۔ ان کو ذہنی اور جسمانی مشقیں بھی کروائی جاتی ہیں۔

 بیڈ منٹن، شطرنج دوسرے کھیلوں کے مشاغل کے علاوہ اکٹھے کھانا کھانے کے مواقع، حکومت کی طرف سے ہر ہفتے کروائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بڑے شہروں میں عورتیں کمیٹیاں ڈالتی ہیں اور جس کی کمیٹی نکلے اس کے گھر یا کلب میں سب خواتین زرق برق لباس پہن کر آتی ہیں۔

بیشتر افراداپنے گھر یا گملوں میں کچن گارڈن بنا کر، پھول لگا کر اس کی دیکھ بھال میں وقت گزار لیتے ہیں۔ اکیلا شخص بیمار ہو تو اس کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے۔ اولاد اچھی ہو تو یہ برا وقت بھی کٹ جاتا ہے۔ 

نوکری اور کاروبار کے دوران بھی، ہفتہ یا مہینے میں ایک دن سب دوست مل کر کھانا بنائیں اور کھائیں، کسی باغ میں چہل قدمی کرنے کی عادت ڈال لیں۔ یہ خیال رہے کہ ایسی نشستیں عورتوں اور مردوں کی الگ کبھی کبھی ہو جائیں۔ ورنہ مناسب اور آپس کے رشتے کو اور مستحکم کرنے کیلئے ایسی ملاقاتیں اور نشستیں بہت لطف دیتی ہیں۔ جب بچے جوان ہو جائیں تو ان کو بھی اپنی علیحدہ محفلیں جمانے کے مواقع ملنے چاہئیں۔۔

مغرب میں تو لڑکے لڑکی کی 18سال کی عمر کے بعد اور کبھی اس سے پہلے دوستی، لمحاتی نہیں بلکہ سنجیدہ اور والدین کے علم کے ساتھ ہو تو پھر ان کو باہمی احتیاط اور اختلاط، سکھایا جاتا ہے۔ مسلم ممالک میں مسائل ہیں۔ ایران میں سخت مذہبی پابندی کے باوجود بغیر شادی رشتے بہت پھیل گئے ہیں۔ مگر وہ نوجوان بچہ پیدا کرنے سے گریزکرتے ہیں۔

 افریقی ممالک میں لڑکوں کے ختنے کے بعدسب کو بتا دیا جاتاہے۔ جتانا ہوتا ہے کہ لڑکے کی شادی ہو سکتی ہے۔ افریقی اور بہت سے اسلامی ممالک میں لڑکیوں کا سرکم سیزن کیا جاتا ہے جس کے خلاف آج کل خواتین مظاہرے کر رہی ہیں۔                                                


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔