Time 30 دسمبر ، 2021
بلاگ

بلاتبصرہ عوامی ٹوٹے

انوکھے لاڈلوں کے دور حکومت میں کیسے کیسے چمتکار ہو رہے ہیں کہ دنیا کے سستے ترین ملک میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو ’’دشمن‘‘ نے اُسی کے قلعے میں گھس کر مہنگائی کی وجہ سے شکست دے دی۔

 خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اورماضی قریب میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی معرکوں میں حکمرا ن جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا پھر بھی کھلاڑی سبق حاصل نہیں کرتے اور کہے جاتے ہیں کہ کپتان ڈٹ کر کھڑا ہے، ہمارے وزیر حشر نشر فرماتے ہیں کہ اگر دوائی کی ایک گولی کی قیمت تین سے سات روپے ہوگئی تو کوئی قیامت نہیں آگئی، پھر ہماراجواب بھی یہی ہے کہ اگر ریاست مدینہ میں ایک مذہبی و سیاسی جماعت جے یو آئی آپ کے قلعے میں بڑا سوراخ کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے تویہ شورشرابہ کیوں؟

 کون سی قیامت آگئی یا آسمان سر پر آن گرا، آپ کو تو خوشی سے ناچنا چاہئے کہ مرشد کی آس مراد پوری ہوگئی۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ اگر ریاست مدینہ میں ایک مذہبی جماعت عوام کے ووٹوں کی طاقت سے کھوکھلی سیاست کے بڑے بڑے برج الٹ دے اور آپ کہیں کہ یہ جماعت تشدد پسند اور انتہا پسند ہے، اس کا اقتدار میں آنا ظلم سے کم نہیں بقول آپ کے ٹی ایل پی اور جے یو آئی کے آگے آنے سے ملک پیچھے چلا جائے گا۔

 ویسے کمال کے لوگ ہیں آپ، کم از کم یہ بات کرنے سے پہلے ذرا سوچ ہی لیتے کہ کیا کہہ رہے ہیں کہیں آپ کے ان تاریخی کلمات کا بڑے لوگ بُرا ہی نہ مان جائیں۔ حیرت ہے آپ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابی نتائج کے باوجود یہ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نہیں ہوگی تو ملک میں کوئی سیاسی جماعت بھی نہیں ہوگی۔
 ذرا سوچئے کہ ملک میں بجلی ہے نہ گیس، آپ کے ہی ووٹر، سپورٹر گھر کا چولہا جلانے کے لئے ”بلے“ کو آگ لگا رہے ہیں۔ اگر آپ عوام کی غربت کا مذاق اڑائیں گے تو جواب میں آپ کے گلے میں پھولوں کے ہار پڑیں گے یا کچھ اور؟ ایسے جوابی فقرے تو پھر سننے کو ملیں گے ہی کہ اگر حکومت گیس فراہم نہیں کرسکتی تو کم از کم احساس ایندھن پروگرام کے تحت گوبر کے مفت اوپلے ہی تقسیم کردے ۔

 کم ازکم مہنگی لکڑی خریدنے سے نجات مل جائے اور شمالی علاقہ جات میں جنگلات کی چوری بھی رکے گی۔ اب تو پاکستانیوں کی اکثریت کو(کچھ انصافیوں کو چھوڑ کر) اندازہ ہوگیا ہو گا کہ انہوں نے گزشتہ تین سال سے جس رسی کو اس اُمید کے ساتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا کہ یہ ہمیں پار لگائے گی دراصل وہ صاحبان اقتدار کی شلواروں کے آزار بند تھے۔ باکمال لوگوں کی لاجواب سروس کے کیا کہنے کہ جس کو بھی ٹائی ٹینک میں سفر کا ٹکٹ ملا وہ واہ واہ کرے اگر کسی کو دوران سفر اُتار دیا تو وہ ٹائی ٹینک پر سوار کرانے والوں کو کوسنے دینے لگے۔ ایسا صرف دنیا کے سب سے سستے ملک میں ہی ممکن ہے۔

 ببر شیر جیسی مونچھوں والے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی پہلے یہ ارشاد فرمائیں کہ میری نظر میں ملک دیوالیہ ہوچکا ہے پھر کسی کے دباؤ پر تردید نما وضاحتی بیان میں کان اُدھر سے پکڑیں یا اِدھر سے کہنے لگیں دراصل میرا یہ مطلب تھا کہ جب حکومتی آمدن و اخراجات کے گوشوارے میں انتہائی عدم توازن آجائے تو ایسا ہوسکتا ہے یعنی مطلب وہی ہے اگر حکومتی کھاتے کا خانہ خراب ہو جائے تو دیوالیہ ہونے کو دیوار پر لکھا پڑھا سمجھا جائے۔

 انوکھے لاڈلوں کی کون کون سی ادا پر داد پیش کی جائے کہ گھر کے ایک اوربھیدی پنجاب کے لاٹ صاحب نے لندن یاترا کے دوران لنکا یہ ڈھائی کہ آئی ایم ایف نے چھ بلین ڈالر کے عوض ہم سے ہمارا سب کچھ لکھوا لیاہے۔ لاٹ صاحب کے کہے پر وہ جانیں یا مرشد،ہم کیوں گنہگار ہوں، ملتان کے شاہ صاحب نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ کہتے ہیں ہمارے معاشی ماہرین افغان طالبان کی مدد کریں گے۔ 

شاہ جی کے بیان پر میرا تو ’’ہاسا‘‘ نئیں رکدا پیا۔ہماری عقل تو گھاس چرنے گئی ہے آپ خود ہی تبصرہ فرما لیں۔ اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ”وفاقی ٹائیگر فورس“ کے ارکان بڑے بڑے اجلاسوں کے دوران مرشد کے لمبے لمبے لیکچر سن سن کر اُکتا چکے ہیں اور براہ راست سوال پوچھنے لگے ہیں کہ مرشد گیس کب ملے گی؟ بجلی کب آئے گی؟ مہنگائی کیسے ختم کرو گے؟ کارخانے بند ہوگئے، چولہے ٹھنڈے پڑ گئے، ہم کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تو کسی منچلے نے ان اجلاسوں کی اندرونی کہانیوں پر ”نیازی ایکسپریس“ کی بس کے دروازے پر بازو پسارے کھڑے مرشد کی یہ تصویر لگائی اور نیچے لکھا ہے ”اب ٹکٹیں میں خود تقسیم کروں گا۔“

 بلاتبصرہ عوامی ٹوٹوں کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج یہ ظاہر کررہے ہیں کہ بڑے مولانا صاحب نے ایک ہی اوور میں تحریک انصاف کے ٹائیگرز کو ڈھیر کرکے دھول چٹا دی ہے اورمرشد نے جلالی کیفیت میں گھر کے سارے ”بھانڈے“ توڑ دیے ہیں اوربڑھک نما غصے میں سچ بول کر ہتھیار ڈال دیے ہیں کہ بڑے چوروں کے لئے راستے نکالے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

 یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سزا یافتہ شخص کو کوئی رعایت دی جائے۔ نواز شریف کی سزا ختم کرنی ہے تو عدالتیں بندکردیں، جیلوں کے دروازے کھول دیں، ایک سزا یافتہ شخص چوتھی بار کیسے وزیراعظم بن سکتا ہے؟ ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ جب بڑے بند دروازوں کی کہانیاں باہر نکلنے لگیں تو سمجھیں صفحہ پلٹ چکا، بازی اُلٹ گئی، کہانی ختم ہو چکی۔

 پنچھیوں کی نقل مکانی کا وقت آچکا ہے۔ مرشد کے غصے سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے نئے انتخابات کی حکمت عملی اور بیانیہ تیار کرلیا ہے اور کسی بھی وقت بڑا دھماکہ کرسکتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔