17 جنوری ، 2022
کراچی (تجزیہ، مظہر عباس) قومی اسمبلی سے منی بجٹ کی منظوری کے باوجود وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لئے خوشی منانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہندسوں میں برتری کے اس کھیل میں گو کہ حکومت کامیاب رہی لیکن اس کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھے گا اور حکومت کی مقبولیت کا گراف نیچے آئے گا ایسے میں حکومت کو اپنی ساکھ برقرار رکھنا دشوار ہو جائے گا۔
جو صورتحال ابھر کر سامنے آ رہی ہے خیبر پختونخوا میں دوسرے اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں حکمراں اتحاد کے لئے اپنے قدم جمائے رکھنا دشوار ہو جائے گا۔
منی بجٹ کا دفاع کرنے والوں کا خود اعتراف ہے کہ اس سے مہنگائی بڑھے گی اور عوام پر اضافی بوجھ پڑے گا لیکن انہوں نے امداد کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کئے جانے کو بھی مجبوری قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نامقبول لیکن درست فیصلہ ہے جس طریقے سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نور عالم اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے ردعمل کا اظہار کیا وہ وزیراعظم کے لئے چشم کشا ہے، دونوں کا تعلق خیبر پختون خوا سے اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے شکست کا مزا بھی چکھا ہے۔
یہ منی بجٹ ایسے وقت ترمیمی بلز کی شکل میں قومی اسمبلی سے منظور ہوا ہے جب خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ سر پر ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک انصاف کو اپنے قدم جمائے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
وزیر دفاع پرویز خٹک جنہیں خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی تنظیم نو کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، ان کے لئے اس سے عہدہ برا ہونا دشوار ہوتا جارہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں دو اہم وفاقی وزراء شوکت ترین اور حماد اظہر سے تکرار بھی ہوئی۔
پرویز خٹک نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تحریک انصاف کو خیبر پختون خوا میں دو عام انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کرایا انہیں ہٹاکر محمود خان کو وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا۔
پرویز خٹک کو سیاسی جوڑ توڑ اور سودے بازی کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے ہی انہیں دل کا غبار نکالنے کی اجازت دی۔ ان حالات ہی میں آئندہ مارچ میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے جب کہ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم (پاکستان) جنہوں نے منی بجٹ کے حق میں ووٹ دیا ان کے لئے بھی آئندہ عام انتخابات میں مشکلات درپیش ہوں گی۔
حکمراں جماعت تحریک انصاف خود اندر سے منقسم ہے، اسے تنظیمی مسائل کا سامنا ہے، صفوں میں دراڑیں نمودار ہوگئی ہیں اسی لئے عمران خان نے عجلت میں تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کر دیا ہے۔
اب پارٹی کے نئے سیکرٹری جنرل اسد عمر ہیں، چار نئے چیف آرگنائزرز بھی مقرر کر دیئے گئے ہیں جو بلدیاتی اور عام انتخابات کے لئے صف بندی کریں گے۔ اندرون پارٹی اختلافات نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔
پرویز خٹک کو خیبر پختون خوا اور علی زیدی کو کراچی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا ایسے میں اگر آئی ایم ایف نے امداد کے لئے نئی شرائط لگائیں یا ایف اےٹی ایف اکثر شرائط پوری کرنے کے باوجود گرے لسٹ میں برقرار رکھتا ہے تو کوئی حیرانی کی بات نہیں۔
عمران خان کے لئے آگے کی راہیں کوئی آسان نہیں لہٰذا اپوزیشن اپنی متوقع پارلیمانی دستوری عددی شکست کے باوجود حکومت کو بددل، حوصلہ شکن اور تقسیم کرنے پر یقیناً خوش ہو گی لیکن ’’اگر مگر‘‘ کی کیفیت دونوں کیمپوں میں برقرار رہے خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں تاہم پیپلزپارٹی کے بغیر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے پنجاب اور وفاقی حکومتوں کے خلاف تحریک اعتماد لانے کا امکان موجود ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے لئے 27فروری اور پی ڈی ایم نے 23مارچ کی تاریخ دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اپوزیشن بحیثیت مجموعی لانگ مارچ کی جانب جاتی ہے یا دھرنے کو ترجیح دی جاتی ہے؟
اگر عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنا دیتے ہیں تو دیکھنا ہو گا اپوزیشن کا آئندہ قدم کیا ہو گا؟ کچھ اپوزیشن رہنمائوں کی رائے میں تحریک عدم اعتماد کے بجائے دھرنا یا احتجاجی مارچ زیادہ فائدہ مند ہو گا۔ مہنگائی کے خلاف تحریک چلانا ہو گی۔
ایک اپوزیشن لیڈر کی رائے میں عمران خان کو آئینی مدت مکمل کرنے دینا اور ووٹ کے ذریعے بعدازاں اقتدار سے نکال باہر کرنا زیادہ سودمند ہوگا اس کے لئے پہلے اپوزیشن کو خود اپنی صفوں میں نظم برقرار رکھنا ہو گا۔
عمران خان جانتے ہیں 2018ء کے عام انتخابات میں ’’غیرجانبدار‘‘ ووٹوں نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا۔ وزیراعظم کو رواں سال کی آخری سہ ماہی میں کچھ اہم فیصلے کرنے ہوں گے لیکن موجودہ حالات میں جس سیاسی و اقتصادی بے یقینی کا سامنا ہے یہ عمران خان کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے اس سے اپوزیشن کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے؟ یہ علیحدہ بحث ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔