Time 10 فروری ، 2022
بلاگ

بغضِ عمران، حبِّ عمران دونوں نقصان دہ

بیجنگ میں اس ہفتے جس مستقبل کی صورت گری ہوئی ہے۔ ’مشترکہ مستقبل کے لیے اکٹھے‘ ہونے کا نعرہ لگایا گیا ہے۔ وہ مستقبل تو پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا بھی ہے۔ ادھر واشنگٹن میں جمہوریت کے نام پر سربراہی کانفرنس میں، جس آئندہ کے لیے منصوبے سوچے گئے، وہ آئندہ واہگہ سے گوادر تک ایک جغرافیائی وحدت میں رہتی مختلف لسانی۔ نسلی قومیتوں کا بھی ہے۔ لیکن ہماری قومی سیاسی قیادتوں، حکمرانوں، میڈیا اور یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے کوئی تبادلۂ خیال کیوں نہیں ہورہا۔

 جس دنیا کی سلامتی کی بات ہورہی ہے۔ کیا ہم اس دنیا میں سانس نہیں لیتے۔ بیجنگ سے، ماسکو سے، واشنگٹن سے جو ہوائیں چلیں گی کیا پاکستان کی سرحدوں پر لگی باڑ ان کا راستہ روک لے گی؟

ہم سب ایک کنوئیں کے مینڈکوں کی طرح ٹرّارہے ہیں۔ دنیا پھر دو بلاکوں میں تقسیم ہورہی ہے، جس کی بنیاد مستقبل کے وسائل بالخصوص انرجی پر ہے۔ صرف بائیڈن۔ بورس جانسن۔ شی اور پیوٹن کے حوالے سے بلاک نہیں بن رہے ۔ انسانوں کی بہبود، معدنی، قدرتی اور انسانی وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔ اپنی اپنی تحقیق اور مطالعے کی بنیاد پر الگ الگ موقف اختیار کیے جارہے ہیں۔ ہم پاکستانی اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتےبلکہ انہیں اپنی غلطیاں ہی نہیں سمجھتے۔

 ہم لمحۂ موجود میں گرفتار رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا ہمارا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں۔ ہم بھی دو بلاکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ زندگی کو صرف بغضِ عمران میں دیکھنا اور گزارنا چاہتے ہیں، کچھ صرف حبِّ عمران میں۔ پاکستان تو ماشاء اللہ عمران سے پہلے بھی تھا اور ان شاء اللہ بعد میں بھی ہوگا۔

میرے خیال میں بیجنگ کے سرما اولمپکس کے موقع پر دنیا کا مستقبل طے کیا گیا۔ اولمپکس میں شرکت اور بائیکاٹ سے بھی دنیا کی سیاسی، اقتصادی محاذ آرائی سامنے آئی ہے۔ بائیکاٹ کرنے والے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان، برطانیہ، لتھوانیا کدھر کھڑے ہیں؟ روس اور چین سمیت 84 ممالک کیا سوچ رہے ہیں؟

چین ہمارا ہر سر دو گرم کا دوست ہے۔ ہم نے اس کی مدد کی ہے۔ اس نے ہماری۔ حکمران بدلتے رہے ہیں۔ لیکن دونوں ملکوں کی قربت میں کبھی رکاوٹ نہیں آئی۔ چین میں فکری اور نظریاتی تبدیلیاں آئی ہیں۔ لیکن ایک مبسوط اور منظّم انداز میں، وہاں روس کی طرح قلابازیاں نہیں کھائی گئیں، نہ ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوا ۔ امریکی تجزیہ نگار بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ چین کی فکر معروضی ہے۔

 وہ اب دنیا کی سر فہرست معیشتوں میں سے ہے۔ اتنا مستحکم ہے کہ اب وہ اپنی باتیں منوانے کی حیثیت میں ہے۔ حالیہ یوکرین بحران میں بھی اس نے مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔ جسے دنیا بھر کے دانشوروں نے تسلیم کیا ہے کہ ایک ملک کی سلامتی کسی دوسرے ملک کی سلامتی کو تباہ کرکے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ چین ہمارا ہمسایہ ہے۔ وہ سیاسی طور پر بھی ہمارے ہر موقف کی تائید کرتا ہے۔ اقتصادی اور مالی طور پر بھی ہماری دستگیری کررہا ہے۔ 

اس لیے ہمیں بھی اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ عالمی معاملات میں اس کے موقف کی تائید کرنی چاہئے۔ ایک پٹّی، ایک سڑک کے ذریعے وہ اپنے ہمسایہ اور خطّے کے ممالک کو بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈالنا چاہتا ہے۔ وہ امریکہ یا بھارت کی طرح چھوٹے ملکوں کو اپنا غلام اور دست نگر نہیں رکھنا چاہتا۔ اس کی پالیسی واضح ہے کہ ہر ملک اپنے قدرتی۔ معدنی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لائے۔ سی پیک کی منصوبہ بندی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں، دانش وروں، یونیورسٹیوں میں جس طرح مائوزے تنگ اور ڈینگ سیائو پنگ کے افکار کو تفصیل سے سمجھا گیا اسی طرح شی چنگ پنگ کے خیالات کو بھی جاننے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس نئے چین کی علامت ہے جس نے دنیا سے اپنی اقتصادی فکر کو تسلیم کروایا ہے۔ 

وہ ایک طویل جدوجہد، تعلیمی اور سیاسی منزلیں طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچا ہے۔ عملی طور پر مزدوروں، کسانوں اور کان کنوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس نے مشترکہ خاندان کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اس کا اصول ہے کہ عوام کی اچھی زندگی کی خواہش کی تکمیل ہماری منزل مقصود ہے۔ سوشلزم کو وہ اپنی چینی خصوصیات کے ساتھ بروئے کار لارہا ہے۔ دنیا سے اپنے روابط میں فروغ چاہتا ہے۔ تعلیم، صحت کو ترقی کے راستے خیال کرتا ہے۔ اپنے ہمسایہ اور قریبی ممالک کے ساتھ مل کر اکیسویں صدی کی صرف خشکی پر ہی نہیں بلکہ بحری اور فضائی شاہراہ ریشم کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اس سارے سفر میں وہ لوگوں کے ساتھ چلتا ہے۔ عام انسانوں سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ صرف چین کے لیے نہیں، اپنے خطّے، ایشیا بلکہ ساری دنیا کے لیے ایک بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہے۔

روس اپنی غلطیوں اور سیاسی پالیسیوں میں کجروی کو تسلیم کرنے کے بعد اب چین سے مفاہمت بڑھارہا ہے۔ چین روس کے ذریعے یورپ تک اپنی اقتصادی پالیسیاں لے جاسکتا ہے۔ اسی لیے چین روس قربت، دنیا کے مستقبل کے لیے نتیجہ خیز رہے گی۔ چین نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ کسی فوجی مہم جوئی میں شریک نہیں ہوگا۔ اس کے اس موقف کا یورپ اور امریکہ کو خیر مقدم کرنا چاہئے کیونکہ اس اصول کی بنا پر روس بھی یوکرین پر فوج کشی سے باز رہے گا۔ یورپ کی سلامتی خطرے میں نہیں پڑے گی۔ عالمی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اگر یورپ سے تعلقات خراب ہورہے ہوں گے تو سب کو یہ اعتماد ہونا چاہئے کہ شی اس صورت حال کو سنبھال لیں گے۔

مغربی تجزیہ کار، چین کے پانچ سالہ عالمی منصوبے کو بھی مغرب میں پھیلتے بحران کا ایک متبادل راستہ قرار دے رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ پوری دنیا کے لیے آئندہ پانچ سال کا لائحہ عمل ہے اور آنے والی آدھی نسل کے لیے واضح روڈ میپ۔ایک زمانہ تھا جب ہمارے سیاسی، علمی، ادبی حلقوں میں۔ چین، روس، امریکہ اوریورپ کے نظریات زیر بحث رہتے تھے۔ عالمی تحریکیں نوجوانوں کا موضوع سخن ہوتی تھیں۔ اس سے ہمارے ذہنی آفاق میں وسعتیں پیدا ہوتی تھیں۔ پاکستانی میڈیا، دانشور اور سیاسی کارکن دنیا کو ان نظریات کی روشنی میں دیکھتے تھے۔ کسی فوجی یا سیاسی حاکم کے بغض اور محبت میں نہیں۔

اب بیجنگ، ماسکو اور واشنگٹن میں مستقبل کی جو صورت گری ہورہی ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کی میٹنگوں میں۔ اخبار کے صفحات پر۔ ٹی وی ٹاک شوز میں۔ سوشل میڈیا میں روس چین امریکہ برطانیہ میں زیر بحث مستقبل کے پروگراموں پر بات کی جائے اور طے کیا جائے کہ پاکستان کو اس عالمی حلقے میں اپنا مقام بنانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ چین کی منزل کیا ہے؟ روس کی کیا تمنّا ہے؟ شکست خوردہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹا گون کون سا کھمبانوچ رہے ہیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔