23 فروری ، 2022
برسوں پہلے ایک ماڈل گرل شبنم عثمان کے قتل کا کیس اس لیے دبا دیا گیا کہ تحقیق میں ایک بڑے سیاسی گھرانے کے فرد کا نام آ گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی روشنیوں کا شہر تھا، بھرپور سیاست بھی یہیں ہوتی تھی اور کرائم کی خبریں بھی آتی رہتی تھیں مگر، ’’جرم و سیاست‘‘ کا ملاپ نہ تھا۔
ریاست نے ایک بااثر شخص کو بچا لیا تو جرائم پیشہ افراد نے سیاست کو ہی اپنا لیا۔ پہلے ان کا کردار ثانوی ہوتا تھا پھر ان میں سےکچھ اسمبلیوں تک بھی پہنچ گئے اور یوں یہ سلسلہ رُک نہ سکا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ ان کا جال چاروں جانب پھیل چکا ہے کیا تھانہ اور کیا جیل اور ملزم مشکل سے ہی مجرم قرار پاتا ہے۔ کیوں کہ اس کو پالنے والے اسے بچا نے میں کامیاب رہتے ہیں۔
پہلی افغان جنگ کے دوران پاکستان میں اچانک ایک طرف ملین ڈالرز بغیر کسی حساب کتاب کے آنے لگے جس کے بارے میں آپ نے اگر جاننا ہو تو کتاب (Deception)ضرور پڑھیں تو دوسری طرف غیر قانونی اسلحہ اور منشیات نے سیاست پر بھی نشہ طاری کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں صحافت میں نیا نیا آیا تھا اور صحافت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایک روشن خیال ملک بنانے کا رومانس بھی تھا۔
خبروں کی دنیا میں داخل ہوا تو کراچی میں پہلی بار ’’انڈر ورلڈ‘‘ کا نام سنا۔ سیاست میں اس وقت اتنا پیسہ نہیں آیا تھا۔ پچھلے 30برس میں بڑے مگر ’’جرم و سیاست‘‘ اور بہت سے معاملات میں ریاست کی پشت پناہی نظر آئی جس کا ایک نقصان تو نظریاتی سیاست اور دوسرا معاشرے کو ہوا۔ جو پیسہ پہلے کمیشن کے نام پر لیا جاتا تھا اب اس نے نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن کی شکل اختیار کر لی ہے۔
کچھ سال پہلے حکمران جماعت کے اقلیتی رکن آنجہانی مہرو مل نے اسمبلی سیشن کے دوران مجھے بتایا کہ اس کا بیٹا اغوا ہو گیا ہے اور بھاری تاوان طلب کیا جا رہا ہے۔ میں نے یہ بات سی پی ایل سی کے اس وقت کے سربراہ جمیل یوسف کو بتائی۔ تحقیق آگے بڑھی تو کڑیاں ایک وزیر تک پہنچ گئیں۔ کیس دبا دیا گیا مگر وہ ایم پی اے اتنا مایوس ہوا کہ اس نے اپنی شہریت سرنڈر کر دی اور بھارت چلا گیا۔ چند سال پہلے اس کے انتقال کی خبر آئی تو مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا۔
پچھلے چند برسوں سے دنیا بھر میں مختلف ’لیکس‘ کے ذریعہ کرپٹ حکمرانوں اور جرم و سیاست کے ملاپ کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں اور ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ پانامہ لیک کے بعد پینڈورا لیک اور اب ’’سوشل سیکرٹس ‘‘نے بڑے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ہمارے یہاں اس کو سب سے پہلے اخبارات نے بے نقاب کیا جب بہت سے ڈرگ مافیا کے سیاسی لوگوں اور غیر سیاسی اور طاقتور اداروں سے منسلک لوگوں کی کہانیاں سامنے آئیں۔ کئی صحافیوں کو خبریں دینے پر دھمکیاں بھی ملیں اور ایک دو جان سے بھی گئے۔ ہمارے یہاں تین حکومتیں برطرف تو اس بنیاد پر کی گئیں مگر پھر انہیں کرپٹ میں سے اچھا کرپٹ اور برا کرپٹ کی تفریق کر کے سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے۔ 90ءکی دہائی میں پاکستان کی سیاست نے ایک نیا رُخ اختیار کیا۔
جن نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم ہوتا تھا انہیں 32 بور کا پستول پکڑا دیا گیا۔اس پیغام کے ساتھ ’’خود بھی کھائو، اور ہمیں بھی لا کر دو ‘ ہزاروں لوگ، اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔اچانک کراچی میں اغوا برائے تاوان ،گاڑیاں اور موٹر سائیکل اور آگے چل کر موبائل فون چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہو نے لگا۔ مگر سیاسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی میں جرائم آگے بڑھتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ پیسہ کرکٹ میں بھی آیا تو یہاں بھی جرائم پیشہ افراد نے کرکٹرز کو ٹارگٹ اس طرح کیا کہ میچ فکس کرو اور پیسہ کمائو ۔ میں نے جب اک بار اسٹوری دی تو ایک بڑے کاروباری شخص نے اپنے ایک کارندے کے ذریعہ پیغام دیا، بھائی ذرا احتیاط کریں۔
انہی دنوں کراچی میں سابق صدر غلام اسحٰق خان نے ایک اجلاس میںان وارداتوں پر تشویش کا اظہار کیا تو وہاں موجود CPLCکے سربراہ جمیل یوسف نے کہا،’’سر بہت سی وارداتوں کےتانے بانے طاقتور لوگوں تک جارہے ہیں۔اجازت ہو تو چھاپہ مارنے جائیں۔‘‘یہ وہ وقت تھا جب خود ان کے داماد عرفان اللہ مروت کےحوالے سےخبریں آ رہی تھیں۔ بعد میں جنرل (ر) شفیق الرحمان کو تحقیقات کیلیے کراچی بھیجا گیا مگر اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی نے انہیں ہوٹل سے باہر ہی نہیں آنے دیا ۔بہت سے متاثرین پولیس نے ہوٹل آ کر بیان ریکارڈ کرایا ۔بعد میں انہوں نے واپس جا کر ایک مفصل رپورٹ تیار کی جس کی کاپی موجود ہے ۔ہونا کیا تھاکیونکہ انہوں نے بھی واضح کیا تھا کہ یہ سارے کام طاقتور لوگوں کی پشت پناہی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اسی طرح’’لیاری گینگ وار‘‘ دراصل چند تھانوں کی کہانی تھی جس پر بعد میں سیاسی رنگ غالب آ گیا۔ پھر کچھ یوں بھی ہوا کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے لیاری کے ٹکٹ پی پی پی نے مبینہ طور پرعذیر بلوچ کے دبائو میں دیئے اور برسوں سے متحرک وہاں کے سیاسی لوگ پیچھے ہٹ گئے۔دوسری طرف نوجوانوں پر مشتمل مہاجر قومی موومنٹ اپنے حقیقی مقاصد سے ہٹ گئی اور سیاست ’علاقہ کنٹرول‘ کرنے پر مرکوز ہو گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ سیکٹر انچارج اور تنظیمی کمیٹی نے اسلحہ کے زور پر سیاست شروع کردی جس کے نتائج وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔اس سیاست کا سب سے زیادہ فائدہ جرائم پیشہ افراد اور تھانوں کو ہوا اور نقصان سیاست کو اور جمہوریت کو ۔آج یا تو پیسے کے زور پر ٹکٹ ملتا ہے یا اسلحہ کے زور پر۔ اسٹریٹ کرائمز، کمیشن اور کرپشن اسی کی ایک شکل ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں رُک سکتا کیونکہ اس میں ملوث لوگ ایک دوسرے کے سہولت کار ہیں۔
2013 میں ایک بڑا آپریشن ہوا اور اعلیٰ سطحی اپیکس کمیٹی نے تفصیل کے ساتھ جرم و سیاست کے ان کرداروں کو بے نقاب تو کیا مگر آگے چل کر یہ ادارے بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو گئے اور اس لیے عزیز آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا اسلحے کا ذخیرہ برآمد تو ہوا مگر اس کی FIRتک نہ کٹ سکی۔ جہاں ملزموں کو طارق روڈ پر پولیس شاپنگ کرا کر ملک سے فرار کروا دے۔ اسپتالوں میں برسوںوی آئی پی طرح رکھا جائے، وہاں انجامِ گلستان کیا ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔