09 مارچ ، 2022
بلاول بھٹو کی قیادت میں عوامی مارچ اپنی منزل پر پہنچ گیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد منظور نہیں ہوتی توکراچی سے اسلام آباد تک اس لانگ مارچ میں پیپلزپارٹی سمیت کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
سیاسی لحاظ سے دیکھیں تو بلاول بھٹو نے یہ سرگرمی تحریک عدم اعتماد کے لیے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی میں نئی جان ڈالنے کے لیے استعمال کی ہے۔ لوگوں کو سڑکوں پر لا کر ملک کو واضح پیغام دیا ہے کہ عوام کا موڈ کیا ہے اور کون ہے جو اس موڈ کےخلاف کھڑا ہے۔
سندھ کو ویسے بھی پیپلزپارٹی کا گڑھ کہا جاتا رہا ہے اس لیے کراچی سے گھوٹکی تک ہر شہر میں ہزاروں جیالوں کی موجودگی حیران کن نہیں تھی۔کئی کلومیٹرطویل گاڑیوں کا قافلہ شاہ راہوں سے گزرا تو لوگوں کے ذہنوں میں بے نظیر بھٹو دور کے لانگ مارچ کی یاد تازہ ہوئی ۔
پیپلزپارٹی کے عوامی مارچ کے مقابلے میں تحریک انصاف کی جانب سے جوابی سندھ حقوق مارچ کا اعلان کیاجانا سنگین غلطی ثابت ہوا۔ بغیرسوچے سمجھے کیے گئے اس اقدام سے پی پی پی کی قیادت کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ شاہ محمود قریشی ،اسدعمر اور علی زیدی خالی کرسیوں سے خطاب کرکے دل بہلا رہے ہیں اور جب سندھ حقوق مارچ حیدرآباد پہنچا تو سابق وزیراعلی سندھ ارباب غلام رحیم کو بھی ماننا پڑگیا کہ پی ٹی آئی کی پنجاب سے قیادت بلا کر بھی رنگ نہیں جمایا جاسکا۔
دوراندیشی سےعاری سیاسی اقدام نے پی ٹی آئی کا وہ نعرہ بھی کھوکھلا ثابت کردیا کہ تیر کو توڑو گے تو سندھ کو جوڑو گے۔ تدبیر الٹی ہونے سے تیر ٹوٹنے کی بجائے اور مضبوط ہوکر ابھرا ہےکیونکہ عوامی مارچ سے پیپلزپارٹی یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہےکہ یہاں بھٹو اور بےنظیرکےسحرکو توڑنا آسان نہیں۔
عوامی مارچ پیپلزپارٹی کے پنجاب ونگ میں نئی روح پھونکنے کا بھی سبب بنا ہے۔ پچھلے چودہ برس میں یہ تاثر پیدا ہونا شروع ہوا تھا کہ پنجاب سے پیپلزپارٹی کا مکمل صفایا ہوگیا ہے۔ یہ صوبہ مسلم لیگ ن کاگڑھ ہے یا پھر یہ تحریک انصاف ہی کو تخت و تاج دے گا۔ مگر ملتان سے روات تک جتنی بڑی تعداد میں جیالے 'بھٹو دے نعرے وجَن گے' گاتے آئے ہیں ، اس سے پنجاب کے سیاسی اُفق پر پیپلزپارٹی ایک بارپھر ابھری ہے۔
زیرک سیاستدان اور مسلم لیگ ق کے رہ نما چوہدری پرویزالہی صحیح کہتے ہیں کہ سیاست میں حالات دیکھ کر جو پہلے فیصلہ کرے وہی کامیاب رہتا ہے، پی ڈی ایم کےلانگ مارچ سے پہلے پیپلزپارٹی نے لانگ مارچ کرکے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے اور توجہ اپنی جانب مبزول کرلی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ڈی چوک پہنچنےسےپہلے ہی پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کی قیادت کو بھی ہمنوا بنا کر مارچ میں شرکت کی دعوت دے ڈالی۔
اب پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ہوگا تو وہ کسی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ اپوزیشن اتحاد کی علامت ہوگا اور یہ کہنا مشکل ہوجائےگا کہ کس پارٹی کے کتنے آدمی تھے؟
ماضی میں پی ڈی ایم کےجلسوں کے بارے میں وفاقی وزرا کہتے رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان مدرسے کے بچوں کو جمع کرلیتے ہیں ورنہ عوام اپوزیشن کےساتھ نہیں۔ پیپلزپارٹی کا تنہا لانگ مارچ ان وزرا کے لیے بھی جواب ہے اور پی ٹی آئی کے ان کارکنوں کے لیے بھی جو یہ سمجھتے رہے ہیں کہ عمران خان کی شخصیت کا سحرحکومت کی ہر غلطی کو لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل کردے گا اور ہر ناکامی کی پردہ پوشی کردے گا۔
پیپلزپارٹی کو اس لانگ مارچ سے پنجاب میں یہ پرکھنے کا بھی موقع ملا ہے کہ طویل عرصے سے صوبے میں جیالوں کا اقتدار نہ ہونے کے باوجود کن مقامی رہنماؤں نے اپنے علاقوں میں پارٹی کو فعال رکھا ہے؟ عوام کس کے ساتھ ہیں اورکس سے خفا ہیں؟ الیکشن جب بھی ہوں، یہ فیصلہ نسبتاً آسان ہوگیا ہےکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار بننے کے خواہش مندوں میں سے کس کو ٹکٹ دیا جانا چاہیے۔
کہیں بہترہوتا اگر پنجاب کے مختلف شہروں میں ن لیگ کے رہنما جیالوں کے پڑاؤ کا انتظام کرنے میں پیپلزپارٹی کے مقامی رہنماؤں کا ہاتھ بٹاتے، اس سے ن لیگ کا تدبر اور وسیع القلبی ثابت ہوتی اور پیپپلزپارٹی کے پاور شو میں ن لیگ کا بھی حصہ ہونے کے سبب پیپلزپارٹی کو کھلا میدان نہ ملتا۔ لیکن شاید کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ بلاول بھٹو اتنی بڑی تعداد میں جیالوں کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اسی مارچ کے دوران سیاسی پرندوں کی اڑان بھی شروع ہوئی ہے، ندیم افضل چن جیسے لوگ پھر پیپلزپارٹی میں آئے ہیں جس سے دیگر کےواپسی کا در بھی کھل گیا ہے۔
عوامی مارچ نے بلاول بھٹو کی سیاسی میچوریٹی بھی ثابت کی ہے۔ وہ نوجوان بلاول جس نے بے نظیر بھٹو کی شہادت پر کہا تھا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے، ایک لمحہ کے لیے ابھرا ضرور تھا مگر سیاست کے داؤ پیچ سیکھتے ہوئے اسے کئی بار اپنے والد آصف زرداری کی ضرورت پڑی تھی، کئی بار ایسا ہوا تھا کہ بلاول کو ایک قدم پیچھے کرکے آصف زرداری کو آگے آکر معاملات سنبھالنا پڑے تھے۔ اس بار بلاول نے تنہا لانگ مارچ کی کامیابی سے قیادت کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ پیپلزپارٹی میں نئی نسل باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔
بلاول بھٹو کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے بلاول کے لیے اسی کمرے کا انتخاب کیا تھا جہاں کبھی ذوالفقار علی بھٹو رہے تھے۔اس انٹرویو کے وقت بلاول بھٹو کے ہاتھ میں پیپلزپارٹی کا پرانا انتخابی نشان تلوار تھی۔ لانگ مارچ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والے بلاول بھٹو کے لیے شاید یہ چیلنج ہی رہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو دور کی پیپلزپارٹی کا راج پھر سے لاسکیں لیکن اس دس روزہ لانگ مارچ نے یہ ضرور واضح کیا ہے کہ بلاول ایک اچھی کوشش ضرور کرسکتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔