09 مارچ ، 2022
امپائر کے نیوٹرل ہونے اور ٹیلیفون کالز کے بند ہو جانے سے اُن سیاسی یتیموں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے جو آج تک چلے ہی اُنگلی پکڑ کر ہیں جن کا ووٹ ایک کال پر’’ہاں‘‘ اور ’’ناں‘‘ میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ اب وہ بیچارے سوچ میں پڑگئے ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ البتہ اگر یہ ’’کالز‘‘ مستقل طور پر بند ہوگئیں تو پاکستان کی سیاست کی سمت بہتر ہو جائے گی۔
اِس فیصلے کے بعد وزیراعظم کے وزراء جو بھی دعویٰ کریں مگر وہ زیادہ پُراعتماد نہیں ہیں لیکن کپتان کو تاثر قائم کرنا آتا ہے۔ اپوزیشن کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ اکتوبر کے بعد سے سیاست میں جو گرمی آئی، اُس کو موسم کی سردی بھی متاثر نہ کرسکی۔ اب اگر امپائر نیوٹرل رہتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو اور فیصلے سیاست دان کرتے ہیں تو چاہے عوامی مارچ ہو، حقوق سندھ مارچ ہو، بلدیاتی الیکشن ہوں یا عام انتخابات، اُن کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہوگا۔
اِس وقت تمام سیاسی جماعتیں اور گروپس متحرک ہیں۔ پنجاب میں پی پی پی کا نیا سیاسی جنم ہو رہا ہے اور بلاول بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل لانگ مارچ کر رہے ہیں تو آگے چل کر اُنہیں سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے مگر شاید اُس میں کچھ وقت لگے گا۔ بلاول کے پاس ابھی وقت ہے دیکھنا ہوگا کہ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کے بعد پنجاب میں اُن کی طرزِ سیاست کیا ہوتی ہے۔
عمران خان کو پارٹی کے اندر شدید اختلافات کا سامنا ہے اور ’’کالز‘‘ کے بند ہونے کے بعد اب وہ کام بھی اُنہیں ہی کرنا پڑ رہا ہے جو اُن کے مزاج کے خلاف ہے۔ اُن کے کچھ قریبی ساتھی بھی صرف اُن کے رویے سے نالاں اور مایوس ہیں۔ ایک دو سے بات کرنے سے اندازہ ہوا کہ وہ صرف رویہ میں تبدیلی چاہتے ہیں کام ہو یا نہ ہو۔
وزیراعظم جب پرویز مشرف پر تنقید کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ کل تک مشرف کے ترجمان آج خان صاحب کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا سوچ رہے ہوں گے تاہم کچھ نے مسلم لیگ سے رابطہ کیا ہے۔ کالز نہ آنے کی وجہ سے اب اُنہیں ذرا دشواری کا سامنا ہے کیونکہ وزیراعظم پر عدم اعتماد کی تحریک خفیہ رائے شماری سے تو ہوگی نہیں۔ عین ممکن ہے کہ خان صاحب کو اگر پختہ یقین ہوجائے کہ کھیل ہاتھ سے نکل رہا ہے تو وہ خود کوئی بڑا فیصلہ کر ڈالیں جو پورے سیاسی منظر نامے کو ہی بدل کر رکھ دے۔ اس لیے شاید اُن کے وفادار وزرا بار بار کہہ رہے ہیں کہ جسے جانا ہے چھوڑ کر ابھی چلا جائے۔
اب کس کے پاس کتنے نمبرز ہیں یہ سب سے اہم سوال ہے مگر اُس پر آنے سے پہلے سندھ میں پی ٹی آئی کے جوابی مارچ کا مختصر جائزہ۔ حقوقِ سندھ کے نام پر گھوٹکی سے کراچی تک مارچ کا فیصلہ بظاہر پی پی پی کے عوامی مارچ کا جواب تھا جس میں غالباً اُن کا سب سے کامیاب شو بدین میں رہا جہاں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا زور ہے اور پی پی پی کو چیلنج کا سامنا ہے مگر مجموعی طور پر یہاں بھی پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اور اتحادیوں کے عدم اعتماد نے وہ نتائج نہیں دیے۔
دوسرا اُسی وقت پی پی پی کا مارچ بھی جاری تھا اور اِس سے اُس کا ورکر زیادہ متحرک ہوگیا۔پی ٹی آئی تھوڑا انتظار کرلیتی اور تنظیمی معاملات بہتر کرکے کچھ کرتی تو نتائج بہتر آتے۔ پھر بھی سیاسی عمل کا خیرمقدم ہی کرنا چاہئے۔
اچھی بات اِس پورے عرصہ میں یہ ہوئی کہ انتظامی طور پر ایک دو واقعات کو چھوڑ کر کسی مارچ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی جس کے لیے پنجاب حکومت اور سندھ حکومت تعریف کی مستحق ہیں۔ اب سنا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ ڈی چوک کی اجازت نہیں دے رہی۔ آخر کیوں؟ کیا اِس سے پہلے یہاں تک کوئی مارچ نہیں آیا۔رہ گئی بات نمبرز گیم کی تو اتحادیوں میں اس وقت سب سے بہتر پوزیشن میں گجرات کے چوہدری ہیں جنہوں نے اپنا ایک غیر اعلانیہ ’’پول‘‘ بنالیا ہے، جس میں ایم کیو ایم (پاکستان)، کچھ جہانگیر ترین گروپ کے لوگ اور پی ٹی آئی کے اندر کا ایک گروپ شامل ہے۔
لہٰذا وہ ایک مناسب تعداد کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اپوزیشن سے بھی اور عمران خان سے بھی۔ بہرحال قوی امکان ہے کہ جو اُنہیں ابھی اور آئندہ کی ٹھوس یقین دہانی کرائے گا وہ اُسی کے ساتھ جائیں گے۔ ذاتی طور پر اُن کی سب سے بہتر انڈر اسٹینڈنگ آصف زرداری صاحب سے ہے۔
خان صاحب کے پُرانے اتحادی وزیراعلیٰ اختر مینگل واضح طور پر وزیراعظم کے خلاف جائیں گے۔ ویسے بھی بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کا رُخ کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ راتوں رات پارٹی بن سکتی ہے۔ اب کیونکہ ’’کالز‘‘ کا سلسلہ رُک گیا ہے تو جو بہتر آفر کرے گا وہ بہتر نتائج پائے گا۔اس پورے عمل میں سب سے اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب ’’عدم اعتماد‘‘ کے نتائج سب کو قبول کرنا پڑیں گے۔ اب کوئی ’’دھند کا بہانہ، کورونا یا بیرون ملک جانا‘‘ نہیں چلے گا۔
لہٰذا ایک بڑا سیاسی میلہ سجنے والا ہے جس میں 300 سے زائد اراکین شریک ہوں گے۔ کون کس کے ساتھ ہے پتہ چل جائے گا۔ وزیراعظم نے پہلے ہی دھمکی دیدی ہے کہ تحریک کی ناکامی کی صورت میں وہ اپوزیشن کے ساتھ کیا کریں گے اورا گر تحریک کامیاب ہوگئی… پھر؟
آخر میں سیاسی یتیموں کا خیال رکھنے کی اپیل۔ سُنا ہے کہ لوگ کوئی قرار داد لے کر آرہے ہیں کہ ’’ٹیلیفون کالز‘‘ بحال کی جائیں۔ رات گئے تک انتظار کرتے ہیں کہ اب کال آئی کہ جب کال آئی۔ اکثر صبح ہوتے ہی پہلے اپنے موبائل فون دیکھتے ہیں کہ کسی ’’نامعلوم نمبر‘‘ سے کوئی مس کال تو نہیں آئی۔ ایوانِ اقتدار کی راہداریوں سے لے کر ایم این اے ہاسٹل تک ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں ’’یار کوئی کال آئی‘‘۔ میری تو دُعا ہے کہ یہ کال کا سلسلہ مستقل طور پر بند ہو، امپائر نیوٹرل رہے کم از کم سیاست دانوں کی صلاحیتوں کا تو پتا چلے کہ یہ اصولی ہیں یا وصولی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔