بلاگ
Time 11 مارچ ، 2022

آصف زرداری وزیراعظم عمران خان کا مرکزی ہدف کیوں؟

وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے بعد سابق صدر آصف زرداری کو اپنا ٹارگٹ نمبرون کیوں قراردیا؟جو ان کیلئے 2018 میں اقتدار  سنبھالنے کے بعد اب تک کاسب سےمشکل چیلنج ہے۔

عمران خان نے اپنے باقی دوحریفوں شریف برادران اورمولانافضل الرحمان کوبھی تنقیدکانشانہ بنایالیکن آصف زرداری کوواضح الفاظ میں للکارا۔گورنرہائوس کراچی میں اپنےتینوں مخالفین کے خلاف سخت تنقیدی تقریرمیں زرداری سےمتعلق کہاکہ میرا پہلاہدف آصف زرداری ہوں گےجوبہت پہلےسےمیری ہٹ لسٹ میں اوپرہیں۔

انہوں نے لوگوں کومارا، پولیس اورگینگسٹرزکواستعمال کیا،وزیراعظم نےکہاکہ زرداری تمہاراوقت پوراہوگیاہے۔ عمران خان کی جانب سےآصف زرداری کومرکزی ہدف بنانےکی کئی وجوہات ہیں، یہ آصف زرداری کاسیاسی چال بازیوں کافن ہے جس کی وجہ سے2018 کےانتخابات سے پہلے بلوچستان میں سیاسی بغاوت کےذریعےعمران خان کوفائدہ پہنچا۔

آصف زرداری نےانتخابی طاقت کےباوجودبلوچستان میں مسلم لیگ(ن)کےخلاف ہواکا رخ موڑا اور ایک نئی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی۔ جس کےارکان نے 2018کے الیکشن کے بعد عمران خان کاوزیراعظم منتخب ہونےکیلئے ساتھ دیا،آصف زرداری نے عمران خان کی سینیٹ الیکشن میں بالواسطہ حمایت کی جب بی اے پی کے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئےاورن لیگ کےامیدوارکوشکست ہوئی۔

آصف زرداری نےاس طرح سابق وزیراعظم نوازشریف سے مسلم لیگ(ن)کے دورمیں ڈاکٹرعاصم حسین سمیت قریبی ساتھیوں کی گرفتاری کاسیاسی بدلہ لیا، آصف زرداری نے بعد میں بھی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کےخلاف عدم اعتمادمیں عمران خان کی بلواسطہ حمایت کی جب سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کےباجودیہ تحریک ناکام ہوئی.

وزیراعظم عمران خان اب سمجھتےہیں کہ تحریک عدم اعتمادکے ماسٹر مائنڈ آصف زرداری ہیں اوروہ یہ بھی سمجھتےہیں کہ زرداری ٹیبل پرچیزوں کوبدل سکتےہیں، یہ آصف زرداری ہیں چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں اور اس سے قطع نظر کہ وہ یہ کیسے کرسکتے ہیں۔اب وزیراعظم اتنے غلط بھی نہیں جب گزشتہ سال جب آصف زرداری نے اپنے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کوپی ٹی آئی کے اکثریت والی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان ہی کی مدد سے سینیٹر منتخب کرواکر وزیراعظم کو شدید دھچکا پہنچایا تھا او ر ج وعمران خان کوبھی معلوم ہے۔ بعد میں زرداری نے ڈبل گیم کےذریعے یوسف رضاگیلانی کواپوزیشن لیڈرسینیٹ منتخب کروایا جب وہ چیئرمین سینیٹ کاالیکشن ہارگئےتھے۔کئی لوگوں کویہ یقین ہےکہ تحریک عدم اعتمادکے پیچھےآصف زرداری ہیں اوروہ ایک طرف پی ٹی آئی کے اندرڈنٹ(دراڑ) ڈال رہے ہیں دوسری طرف مسلم لیگ(ق)کےساتھ بھی غیرفطری اتحادکررہےہیں۔

آصف زرداری کی گجرات کےچودھریوں کے ساتھ2008 کے بعد سے انڈر اسٹینڈنگ بھی وزیراعظم کیلئےچیزیں مشکل بنارہی ہے، چودھری وزیراعظم سے زیادہ آصف زرداری پر اعتمادکرتے ہیں۔ اس کشمکش اور تحریک عدم اعتمادکے تناظر میں ق لیگ اور دیگر اتحادیوں نے وزیراعظم کومشورہ دیاہےکہ اتحادیوں سے متعلق پریشان ہونے کے بجائے پہلے وہ اپنےگھر(ارکان کو سنبھالیں جو انتشارکا شکار ہے۔

اگر وہ ایوان سے اعتمادکا ووٹ لینےمیں ناکام ہوتے ہیں تو ان کی پارٹی میں مزید توڑ پھوڑ ہونےکے امکانات ہیں، اس کے بعد انہیں 2018 میں حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی پالیسیوں پرنظرثانی اور خلاپر کرنےکاموقع ملے گا، اگراعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توہرامکان موجود ہےکہ وہ اپنےمخالف مرکزی اپوزیشن رہنمائوں کےخلاف مزیدسخت ہوجائیں گے جس کا وہ اشارہ دے چکےہیں۔

موجودہ بحران کیا لیکر آئےگا اور کیا آئندہ دو ہفتوں میں وہ حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ دونوں صورتوں میں آنےوالےہفتوں میں سیاسی محاذآرائی ممکنہ ہارس ٹریڈنگ اورمسل پاورکی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے۔

ابھی ان کے پاس شوکرنےکیلئےکارڈزباقی ہیں جیساکہ ہم نےماضی میں بھی دیکھاکہ حکومت کے پاس ایسی صورتحال میں معمولی برتری ہوتی ہے۔ وہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے کیا حربے استعمال کریں گے؟ اپنے ارکان کواسمبلی سیشن میں جانے سے روکیں گے؟ قا نونی رائے آرٹیکل 63اے کے ذریعے نا اہلی پرمنقسم ہے۔

اس کے علاوہ عمران خان ضمنی الیکشن اورکنوٹمنٹ بورڈبلدیاتی انتخابات میں پارٹی کی شکست کوکبھی ٹھیک سےسمجھ نہیں پائےاور حال ہی میں کے پی بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں شکست کی وجوہات نہیں جان پائے جس پرانہوں نے پارٹی تنظیم کو تحلیل کرکے نئی تنظیم کااعلان کیا۔ تحریک عدم اعتمادآنےکےبعدبھی ان کی پارٹی میں کئی گروپ سامنے آئےہیں تاہم ایم کیوایم پاکستان کےساتھ ملاقات سےانہیں کچھ امیدملی ہے۔

نوٹ: سینئر صحافی مظہر عباس کی یہ تحریر 11 مارچ  2022 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔