بلاگ
Time 20 مارچ ، 2022

مسئلے کا حل استعفیٰ اور استعفے

آج اتوار ہے۔ 23مارچ سے تین روز پہلے کا اتوار۔ 23مارچ بھی پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی سال والی۔ بچوں سے ملنے، ان کی حیرت بھری باتیں سننے کا دن۔ مگر آج پاکستان خدشات اور خطرات میں گھرا ہوا آرہا ہے۔ میں تو سخت گھبرایا ہوا ہوں۔ اپنے Future Residents۔ ساکنانِ مستقبل کے سامنے شرمندہ ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

 اپنی آزادی کے 75ویں سال میں تو ایک شعوری پختگی۔ ذہنی بلوغت ہونی چاہئے۔ قائدین کے چہروں پر ایک طمانیت اور ولولہ ہونا چاہئے۔ وقت ان سے تدبر کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن وہاں تو برہمی ہے۔ حسد ہے۔ دشنام طرازی ہے۔میرا پوتا پوچھ رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان، آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے والدین نے تحریک پاکستان میں حصّہ لیا تھا۔ قیامِ پاکستان میں ان کے خاندانوں کا کوئی حصّہ ہے۔ میں الٹا اس سے سوال کررہا ہوں کہ اس کا آج کی صورت حال سے کیا واسطہ ہے۔

 میں تو اس کے جواب پر شرمسار ہوگیا ہوں۔ وہ کہہ رہے ہیں اگر ان کے خاندانوں کا پاکستان بنانے میں حصّہ ہوتا تو یہ آج اقتدار کی فکر نہیں پاکستان کا خیال رکھ رہے ہوتے۔آپ کے بچے بھی یقیناً یہی سوچ رہے ہوں گے۔ وہ انٹرنیٹ پر دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ کتنا استحکام ہے۔ زندگی کی کتنی آسانیاں۔ حکمران اپنے لوگوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

چھ سات دہائیوں کے اپنے مشاہدات کے بعد میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ حکمرانوں اور قائدین کو صرف اقتدار حاصل کرنے کی امنگ ہی نہیں ہونی چاہئے۔ اقتدار سے علیحدگی کا ادراک بھی ہونا چاہئے۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ بہت سے لوگ اقتدار سے باہر رہ کر زیادہ محترم ہوجاتے ہیں۔ پہلے جب 80-70 اور 90کی دہائیوں میں ایسے بحران آئے تو مصطفیٰ صادق جیسے صلح جو آپس میں رابطے کرواتے تھے۔ 

سردار عبدالقیوم حرکت میں آجاتے۔ بریگیڈیئر نیاز جیسی محترم شخصیتیں متحرک ہوجاتی تھیں۔ ان کی اپنی کوئی خواہش نہیں ہوتی تھی۔ ملک میں استحکام ان کی آرزو ہوتی تھی۔ اب ایسی کوئی ہستی نظر نہیں آرہی ہے۔ میڈیا میں نہ سیاست میں نہ ہی علمائے دین میں بلکہ جلتی پر تیل چھڑکنے میں میڈیا کا ایک حصّہ۔ اپوزیشن اور وزرا سرگرم ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام۔ انتقام کا ایک خوفناک دَور ہر صورت میں شروع ہوگا جو ملک کو اور پیچھے لے جائے گا۔

پارلیمانی نظام ہمارے لیے کبھی استحکام کا باعث نہیں رہا کیونکہ حکمران اقتدار سے چمٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس میں وسط مدتی انتخاب کی سہولت رکھی گئی ہے۔ ابھی معاملات جو زیادہ نازک اور سنگین ہورہے ہیں، وہ پارلیمانی نظام کی روایات کو نہ اپنانے سے ہورہے ہیں۔ اپنی پارٹی کے اقدامات سے۔ پارٹی لیڈر سے اگر اصولی اختلافات ہوں تو پارلیمانی نظام کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ آپ پارٹی کی وجہ سے ملنے والی اسمبلی کی رکنیت سے دستبردار ہوجائیں۔ آپ کو اگراپنے حلقے کے ووٹروں کی حمایت حاصل ہے تو وہ آپ کو آزاد یا کسی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب کرلیں گے۔ 

وزیر اعظم عمران خان کے لیے بھی بہتر راستہ یہی ہے کہ اگر ان کی پارٹی کے دس سے زیادہ ایم این اے ان کی پالیسیوں پر اعتماد نہیں کررہے تو ان کو قانون کے مطابق مطلوبہ افراد کی حمایت حاصل نہیں رہی تو وہ باعزت طریقے سے قوم کو اعتماد میں لیں اور ایسے متنازع اقتدار کو چھوڑ دیں تو عوام ان کے زیادہ گرویدہ ہوجائیں گے۔ انہیں دوبارہ اقتدار میں زیادہ اکثریت سے لائیں گے۔ ہماری بیگم تو کہتی رہتی ہے کہ سلیکٹرز نے اگر واقعی انہیں سلیکٹ کیا تھا تو انہیں دو تہائی اکثریت کیوں نہیں دلوائی۔ سب کچھ اگرواقعی سلیکٹرز کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو ان کی پوزیشن ڈانواں ڈول کیوں رکھی۔

ملک کو بحران سے نکالنا اگر واقعی مقصود ہے تو میرے خیال میں اس کا حل منحرفین اور وزیر اعظم کے استعفوں میں ہی ہے۔ وزیر اعظم ان دنوں جو جلسے کررہے ہیں۔ ان کا ثمر بھی انہیں اسی صورت میں یقیناً ملے گا اور یہ جلسے ان منحرفین کے حلقوں میں بھی کیے جائیں۔پاکستان کی تاریخ میں صرف صدر ایوب خان کا استعفیٰ ہے جو کچھ کچھ وقت پر آیا۔ اسی لیے ان کے جانے کے بعد ان کی یاد آتی رہی۔ یحییٰ خان نے رسوائی کے بعد استعفیٰ دیا۔ بلکہ ان سے لیا گیا۔ بھٹو صاحب بھی اگر قومی اتحاد کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بائیکاٹ کے فوراً بعد استعفیٰ دے دیتے تو سرخرو رہتے۔ میاں نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے استعفیٰ دے دیتے۔ 

صدر جنرل مشرف 18 فروری کو منصفانہ، آزادانہ الیکشن کروانے کے فوراً بعد استعفیٰ دے دیتے تو کیسا رہتا۔ اسی طرح صدر آصف زرداری 18 ویں ترمیم کی منظوری کے فوراً بعد مستعفی ہوجاتے تو تاریخ میں کتنے اچھے الفاظ سے یاد کیے جاتے۔اب سندھ ہائوس میں پناہ گزیں منحرفین کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ طے ہوگیا ہے کہ پارٹی کے یہ اراکین اپنے قائد پر اعتماد نہیں رکھتے۔ اس لیے وزیر اعظم کو ایوان کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں رہی ہے۔ وہ اگراستعفے دے دیں گے تو یہ ان کی اخلاقی جیت ہوگی۔

پارلیمانی نظام کی یہ قباحتیں اور کمزوریاں ہیں کہ اس میں استحکام نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہمارے پڑوس انڈیا میں وزیراعظم نہرو نے شروع میں ہی بڑی زمینداریاں، رجواڑے ختم کیے کیونکہ یہ با اثر لوگ پارلیمانی نظام کے طریق انتخاب پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی لوگ 1947 میں بر سر اقتدار تھے۔ اس لیے اس ترجیح کو نہیں اپنایا گیا۔ 1958 کے مارشل لا سے پہلے کا جوڑ توڑ دیکھ لیں۔ کتنی بار حکومتیں گرائی گئیں کتنے وزیر اعظم آئے۔ اس نظام نے ہماری بنیاد کو ہی مضبوط نہیں ہونے دیا اس کے بعد 1999- 1977- 1969 میں فوجی حکومتیں اسی لیے قائم ہوتی رہیں۔ یہ با اثر افراد اپنے اپ کو کسی قانون کا پابند نہیں سمجھتے۔ یہ چار پانچ مل کر بیٹھیں تو حکومتِ وقت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

میں نہ بغضِ عمران میں ہوں۔ نہ حبِ عمران میں، صرف اور صرف پاکستان کے استحکام کا آرزو مند ہوں۔ اور اپنی تحریر دائمی اصولوں پر مبنی رکھنا چاہتا ہوں۔ موجودہ انتخابی طریقے برقرار رہے۔ پارلیمانی نظام رہا اور انتخابیوں کی بالادستی رہی تو قانون، آئین یوں ہی لاوارث رہیں گے۔ حکومتیں ایم این ایز کی نازبرداری میں اپنی مدت گزارنے پر مجبور ہوں گی۔ ملک میں قانون سازی نہیں ہو سکے گی۔ استحکام خواب رہے گا۔ زندگی دشوار ہوتی رہے گی۔ پاکستان ابھی دنیا سے قریباً 50سال پیچھے ہے پھر اور پیچھے رہ جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔