31 مارچ ، 2022
ملکی سیاست میں ایک بار پھر خفیہ خط کا ذکرعروج پرہے۔ وزیراعظم نے 27مارچ کو اسلام آباد جلسے میں بتایا تھا کہ بیرون ملک سے حکومت کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ وزارت خارجہ کو ایک دھمکی آمیز خط بھیجا گیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ عوام کو تو یہ خط نہیں دکھایا جاسکتا لیکن اگر کسی کو اس پر شک ہے تو وہ آف دی ریکارڈ یہ خط دکھانے کیلیے تیار ہیں۔ جس کے بعد اپوزیشن سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے وزیراعظم سے خط دکھانے کا مطالبہ زور پکڑگیا۔ اور کل وزیراعظم نے صحافیوں سے ملاقات میں اس مبینہ دھمکی آمیز خط کے مخصوص مندرجات شیئر کردیے۔
اس ملاقات میں صحافیوں کو اصل خط تو نہیں دکھایا گیا اور نہ ہی خط میں استعمال کیے گئے الفاظ حرف بہ حرف بتائے گئے لیکن خط کے اہم مندرجات اور مطلب سے آگاہ کیا گیا۔ بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا گیا کہ یہ خط کسی دوسرے ملک نے پاکستان کو نہیں لکھا اور نہ ہی یہ کسی پاکستانی سفارتکار کا تجزیہ ہے، بلکہ دھمکی نما خط پاکستانی سفارتی عملے اور دوسرے طاقتور ملک کے سفارتی عملے کے درمیان آفیشل میٹنگ میں ہونے والی گفتگو کی دستاویزی شکل ہے اور سفارتکاروں کے درمیان جو بھی بات چیت ہوئی وہ پاکستانی سفارتکار نے لفظ بہ لفظ وزارت خارجہ کوبھیجی ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا کہ ہمیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا لیکن اگر یہ تحریک ناکام ہوئی تو آنے والے دن پاکستان کیلیے مزید مشکل ہوجائیں گے۔ اسد عمر نے یہ واضح کیا کہ حکومت سیکرٹ ایکٹ کے قانون کی وجہ سے حرف بہ حرف وہ الفاظ تو شیئر نہیں کرسکتی جو خط میں استعمال کیے گئے لیکن متن کا مطلب یہی ہے۔
ملاقات میں وزیراعظم اور وزرا نے بتایا کہ ہمیں regime changeیعنی حکومت کی تبدیلی کی دھمکی دی گئی ہے۔ ملاقات میں وزیراعظم نے صحافیوں سے کہا کہ اگر کسی کے ذہن میں خط کو لے کر کوئی شکوک و شبہات ہیں تو دور کرلیں کیوں کہ خط بالکل سچ ہے اور خط میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ تصور سے بھی زیادہ خطرناک اور تکبرانہ ہیں، لیکن سفارتی مجبوریوں اور سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے وہ کسی ملک یا حکام کا نام نہیں لے سکتے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ کابینہ سے یہ خط شیئر کیا جاچکا ہے۔ جب کہ پارلیمنٹ کے ان کیمرا اجلاس میں بھی یہ خط لایا جائے گا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستانی سفارتکار کی غیرملکی سفارتکاروں سے ملاقات میں مبینہ دھمکی آمیز پیغام دیا گیا۔ پاکستانی سفارتکار کو بتایا گیا کہ یوکرین سے متعلق پاکستان کے مؤقف پر مغربی ممالک خوش نہیں ہیں۔ اور مغربی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ریاست کی نہیں بلکہ وزیراعظم کی ذاتی پالیسی ہے۔مگر سفارتکار نے انہیں سمجھایا کہ یہ وزیراعظم کی ذاتی نہیں بلکہ ریاستی پالیسی ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے صحافیوں کو بتایا کہ یوکرین سے متعلق پاکستانی مؤقف سے زیادہ مغربی ممالک کو وزیراعظم کے دورہ روس سے مسئلہ ہے۔ جس پر وزیراعظم نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ روس جانے سے پہلے حکومت نے عسکری قیادت سے رائے مانگی تو عسکری قیادت نے روس جانے کے حق میں رائے دی۔ دورے کے بعد بھی عسکری قیادت نے کہا کہ دورہ روس کا فیصلہ بالکل درست تھا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔