14 اپریل ، 2022
پاکستان کے سابق کرکٹر اور امپائر نذیر جونئیر کے بیٹے نعمان نذیر کا کہنا ہے کہ دو سال قبل پیش آئے حادثے کے بعد ان کے والد 21 دن کومہ اور 45 دن وینٹی لیٹر میں رہے۔
76 سالہ نذیر جونئیر نے 14 ٹیسٹ میچز اور 4 ون ڈے انٹر نیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی، ان کے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز 24 اکتوبر 1969 کو کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوا جب کہ آخری ٹیسٹ میچ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف 9 سے 13 دسمبر تک ایڈیلیڈ میں کھیلا۔
آف اسپنر نذیر جونئیر نے پہلا ون ڈے انٹر نیشنل 21 نومبر 1980 کو کراچی میں ویسٹ انڈیز جب کہ آخری ون ڈے انٹر نیشنل 10 جنوری 1984 کو سڈنی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلا، نذیر جونئیر ریٹائر منٹ کے بعد بھی ایک بھر پور زندگی گزار رہے تھے ، وہ ریلوے کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔
3 برس قبل 18 اپریل 2019 کو دبئی سے ملنے کے لیے آنے والے بیٹے نعمان کو ضد کر کے موٹر سائیکل پر صبح کی سیر کے لیے گلشن راوی لاہور میں اپنے گھر سے نکلے اور ملتان روڈ پر سمن آباد موڑ کے قریب ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آنے والی وین نے موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی جس کے نتیجے میں باپ بیٹا شدید حادثے کا شکار ہوگئے۔
حادثے کے وقت نذیر جونئیر کو سر پر شدید چوٹ لگی، ٹانگوں اور بازوؤں پر بھی چوٹیں آئیں، بیٹے کو ٹانگوں اور کندھے کا فریکچر ہو گیا جب کہ کمر کی تکلیف سے بھی دوچار ہو گئے۔
نذیر جونئیر چل پھر نہیں سکتے تھے، انہیں ہر پل ایک اٹینڈنٹ کی ضرورت ہے ، وہ بول بھی نہیں سکتے، پہلے کچھ سمجھ بھی نہیں سکتے تھے لیکن اب اس میں بہتری آرہی ہے بیٹا نعمان ان کا خیال رکھتا ہے جو اب دبئی سے ان کے پاس ہی شفٹ ہو گئے ہیں۔
نعمان نذیر نے جیو نیوز کو بتایا کہ یہ اللہ کا معجزہ ہے کہ میرے والد ہم سب کے سامنے موجود ہیں، وہ حادثے کے بعد 21 روز کومہ میں رہے جب کہ 45 روز وہ وینٹی لیٹر پر رہے ، دو دن سروسز اسپتال میں رہنے کے بعد انہیں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے بہت خیال رکھا، پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہر لمحہ خیال رکھا اور رابطے میں رہتے ہیں۔
نعمان نذیر نے بتایا کہ ہیڈ انجری کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اب پہلے سے بہتری آ رہی ہے، اب وہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں لیکن ری کوری بہت سلو ہے ، ہمیں اتنا سکون ضرور ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں ، وہ اسپورٹس مین رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ قوت ارادی بہت ہے اسی لیے وہ ہمت نہیں ہارے، اب تو وہ خود اٹھنے بیٹھنے کے قابل ہیں، ٹھیک ہے چل پھر نہیں سکتے، بول نہیں سکتے لیکن اتنی خوشی ہے کہ ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ والد محترم نے ہمیں اپنی زندگی کے سب واقعات بتائے ہوئے ہیں، شاید انہوں نے مجھ سے اسی لیے شیئر کیے تھے کہ میں اب اس وقت ان کے ساتھ شیئر کرسکوں کیونکہ میں روزانہ ان کے ساتھ کرکٹ پر بات کرتا ہوں اور جب میں ان کے ساتھی کرکٹرز عمران خان ، سرفراز نواز ، ظہیر عباس جاوید میاں داد سمیت دیگر کا تذکرہ کرتا ہوں اور واقعات اونچی آواز میں سناتا ہوں تو ان کےچہرے کے تاثرات ہی بدل جاتے ہیں، وہ بول تو نہیں سکتے لیکن ان کا چہرہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ انہیں سب یاد ہے ، اور یہی ہمیں اچھا لگتا ہے۔