27 اپریل ، 2022
اسلام آباد: عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جلد انتخابات کرانے کے لیے فوج پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن مسلح افواج نے غیر سیاسی رہنے کا عزم کر رکھا ہے۔
تحریک انصاف کے سوشل میڈیا فالوورز کو عمران خان نے ’’شوشل میڈیا کے جنگجو‘‘ قرار دے رکھا ہے لیکن ان جنگجوؤں کی تدبیریں الٹی پڑ سکتی ہیں جس کی بنیادی وجہ فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف شروع کی جانے والی توہین آمیز مہم ہے کیونکہ ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سوشل میڈیا پر جاری اس مہم سے ناراض ہے۔
دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے پاس شواہد ہیں کہ کس طرح یہ توہین آمیز مہم چلائی جا رہی ہے، اس کی تفصیلات درست وقت آنے پر سامنے لائی جائیں گی۔
دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک سینئر ذریعے کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت کا ایسی کسی مہم سے تعلق نہیں لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈالنا چاہتی ہے تاکہ جلد الیکشن کی راہ ہموار ہو سکے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات کے برعکس، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس مہم چلائے جانے کے ٹھوس شواہد ہیں۔
گزشتہ ہفتے لاہور میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ’’جس نے بھی‘‘ انہیں عہدے سے ہٹانے کی غلطی کی ہے اس کا ازالہ جلد الیکشن کرا کے پورا کیا جا سکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو واضح پیغام دیا ہے کہ انہیں عہدے سے ہٹانے کی اس ’’غلطی‘‘ کو سدھارنے کا واحد راستہ فوراً جلد الیکشن کرانا ہے۔
دفاعی ذرائع نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنا غیر سیاسی موقف برقرار رکھے گی اور جلد الیکشن کرانے کیلئے کسی بھی طرح سے کسی کو بھی دباؤ میں نہیں لایا جائے گا، یہ تمام معاملات سیاستدان خود آپس میں بیٹھ کر طے کریں۔
پی ٹی آئی اسلام آباد کی جانب مارچ کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کے بعد 2014 کی طرز کا دھرنا بھی ہوگا تاکہ جلد انتخابات کے مطالبے پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
کہا جاتا ہے کہ 2014 کے دھرنے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت شامل تھی لیکن اس کے باوجود نواز شریف حکومت کو ہٹایا نہیں جا سکا تھا، یہ دیکھنا باقی ہے کہ پی ٹی آئی اپنے اعلانیہ دھرنے کے بعد شہباز شریف حکومت پر دباؤ ڈال کر جلد الیکشن کرا پائے گی یا نہیں۔
وہ بھی ایسے حالات میں جب پی ٹی آئی والوں کی سوشل میڈیا مہم پہلے ہی فوج مخالف بیانات کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کا باعث بنی ہوئی ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق، صورتحال اُن کے لیے بھی پریشان کن ہے اور اس بات پر بحث و مباحثہ بھی ہوا ہے اور پارٹی میں احساس بھی پایا جاتا ہے کہ فوج اور اس کے سربراہ کو ہدف بنانے سے پی ٹی آئی کا بھلا نہیں ہوگا۔
پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے فوج کی حمایت اور پاکستان کے لیے فوج کی اہمیت کے حوالے سے بیانات دیے ہیں۔
اِن ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے نہ صرف عوام میں کھل کر یہ کہا ہے کہ بلکہ نجی محافل میں بھی کہا ہے کہ فوج ملک کے لیے اُن سے بھی زیادہ اہم ہے، فوج کے بغیر پاکستان باقی نہیں رہ سکتا۔
تاہم کچھ سیاسی مبصرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ عمران خان سمیت پارٹی کے کسی بھی رہنما نے فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والی ٹیم اور پارٹی کے حامیوں کی مذمت نہیں کی۔
نوٹ: یہ خبر 27 اپریل 2022 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے۔