Time 17 مئی ، 2022
پاکستان

قومی اسمبلی کی تحلیل، فوری یا دو ماہ بعد؟

نون لیگ اور جے یو آئی ف فوری طور پر قومی اسمبلی کی تحلیل کیلئے تیار ہیں تاہم آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات کے بعد ہی انتخابات کرائے جائیں/ فائل فوٹو
نون لیگ اور جے یو آئی ف فوری طور پر قومی اسمبلی کی تحلیل کیلئے تیار ہیں تاہم آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات کے بعد ہی انتخابات کرائے جائیں/ فائل فوٹو

قومی اسمبلی کی تحلیل کا غالب امکان ہے کیونکہ حکمران اتحاد میں شامل کوئی سینئر رہنما پیٹرولیم مصنوعات پر دی گئی سبسڈی ختم کرنے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ انہیں شدید مہنگائی کا ڈر ہے۔

سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کو فوری تحلیل کیا جائے گا یا دو ماہ بعد؟میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان سمیت سبھی متفق ہیں کہ سبسڈی ختم کی گئی تو شدید مہنگائی ہوگی جس کی حکمران جماعتوں کو سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔

نون لیگ اور جے یو آئی ف فوری طور پر قومی اسمبلی کی تحلیل کیلئے تیار ہیں تاہم آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات کے بعد ہی انتخابات کرائے جائیں۔

ایسا لگتا ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں میں فوری طور پر قومی اسمبلی کی تحلیل پر اختلاف ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ آصف زرداری ہیں جبکہ نون لیگ جانتی ہے کہ سبسڈی ختم کیے بغیر موجودہ حکومت کے برقرار رہنے کی سیاسی قیمت نون لیگ کو بھاری پڑ سکتی ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ سخت فیصلوں کی وجہ سے ادا کی جانے والی سیاسی قیمت تمام اتحادیوں کو مساوی انداز سے چکانا ہوگی۔ انہوں نے کہا تھا کہ نون لیگ اکیلے یہ قیمت ادا کرے گی۔

نون لیگ سخت فیصلے کرنے کا خطرہ صرف اسی صورت مول لینا چاہتی ہے جب اسے یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ موجودہ حکومت اگست 2023ء تک قائم رہے گی۔ تاہم، چند ایسے اہم عوامل، جنہیں نون لیگ کھل کر بیان نہیں کر رہی، کی وجہ سے پارٹی کو لگتا ہے کہ انتخابات رواں سال ستمبر یا اکتوبر میں ہو سکتے ہیں۔

موجودہ حکومت کا جولائی سے اگست تک برقرار رہنا زرداری کو موزوں لگ رہا ہے لیکن شریف فیملی کو ایسا نہیں لگتا۔ نون لیگ کی رائے ہے کہ مشکل فیصلوں کی صورت میں شہباز شریف کو کم از کم حکمرانی کیلئے چند مہینے نہیں بلکہ ایک سال کا وقت درکار ہے تاکہ کارکردگی نظر آسکے اور عوام پر آنے والے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔

ہر لمحے کی تاخیر اور عدم فیصلے کی وجہ سے پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے کیونکہ زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گھٹ رہی ہے۔

پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف کی مدد کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک کو ممکنہ دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ وزیراعظم کی جانب سے فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے نہ صرف معیشت کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ پاکستانی روپیہ اپنی قدر بھی کھو رہا ہے۔

مزید خبریں :