31 مئی ، 2022
سنجیدہ طبقہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے اس ملک میں سیاست اور جمہوریت تنزلی کا شکار ہیں۔۔۔سیاست گندی گالی اور جمہوریت بدترین آمریت کی صورت اختیار کر رہی ہے۔۔۔تحمل اور عدم برداشت نے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں بدل دیا ہے۔۔۔جھوٹ سیاسی ایمان کا بنیادی جزو بن گیا ہے۔۔۔
جھوٹ، فریب، تضحیک, تمسخر, الزام، دھمکیاں اور انتقام عمران خان کی سیاست کی بنیاد تصور کیا جاتا ۔۔۔خود کو اس کائنات کا عظیم راہنما منوانےکے عمل نے اس قومی ہیرو کی زندگی کے مثبت پہلؤوں پر بھی منفی رنگ چڑھا دیا ہے۔۔۔
دور اندیش لوگوں کا مؤقف ہے کہ عمران خان کے دور میں ’’نظریہ مطلق العنانیت‘‘ کی تکمیل کے لئے صدارتی نظام رائج کرنے کا شوشہ چھوڑا کیا تھا۔۔۔عمران خان کا طرز عمل اور انداز سیاست اسی سازش کی کڑی ہو سکتا ہے۔۔۔ہو سکتا ہے کہ ملک میں گروہی, سیاسی، مذہبی اور سماجی نفرتیں پھیلانے کی ذمہ داریاں پوری کی جارہی ہوں۔۔۔
25 مئی کی لونگ مارچ کے دوران عمران خان کے عزائم سامنے تھے لیکن ان کے علم میں 2014 کے لونگ مارچ اور دھرنے اور 2022 کے لونگ مارچ کے انتظامی اور مقتدر حلقوں کی سوچ میں تبدیلی کا اندازہ نہیں تھا۔۔۔عمران خان اپنی "مطلق العنانیت" کے جنون میں سوچ کی اس تبدیلی کو روندتے ہوئے انقلاب برپا کرنے کے لئے 20 لاکھ عوام کے ذریعے اسلام آباد فتح کرنے کا دعوی کر بیٹھے ۔۔۔لیکن ان کی سوچ کے غبارے سے ابتدائی مرحلے میں ہی ہوا نکل گئی جب انہیں 10 ہزار کا مجمع اکٹھا کرنے میں بھی دشواری کا سامنا تھا۔۔۔اور 20 لاکھ کے دعوی کو فراموش کرتے ہوئے خیبر پختون خوا کی حکومت کے کندھوں پر سوار ہو کر وفاقی دارالحکومت پر یلغار کرنے چل پڑے۔۔۔
اگرچہ ایجنسیوں کی جانب تخریب کاری کے امکانات سے خبردار کر دیا گیا تھا۔۔. اور تصادم کے خدشات پی۔ٹی۔آئی کے راہنما کی تقاریر سے بھی عیاں ہوتے تھے۔۔۔ اٹک پل پار کرتے ہی کی۔پی۔کے کی سرکاری طاقت کے ذریعے انتشار کی سیاست غالب آ گئی۔۔۔اسلام آباد تک نفرت انگیز تقاریر کرتے ہوئے حکومت وقت کے خلاف اعلان جہاد میں شرکاء کو تباہی پھیلانے پر اکسایا جاتا رہا۔۔۔عمران خان نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ سپریم کورٹ نے جی۔نائن اور ایچ نائن کے گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کی اجازت دی ہے۔۔اس سے آگے جانا منع ہو گا۔۔۔اعلان کیا سب ڈی چوک پر جمع ہوں۔۔۔اور ’’جہادی‘‘ قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو روندتے ہوئے جیسے دشمنوں کے علاقوں کو تاراج کیا جاتا ہے۔۔۔انتشار کے اس مظاہرے کے دوران راستے میں آنے والی ہر جاندار اور بے جانوں کو تباہ و بالا کرتے ہو فتح مندی کے لئے اپنی منزل ڈی چوک کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔اس دوران کے۔پی۔کے کو تربیت یافتہ گروہ کو دو ہدایات کے ساتھ ڈی چوک پر پہنچنے کا حکم ملا ۔۔
ایک یہ کہ ریڈ زون کی سیکیورٹی کو تہ و بالا کر دیں تاکہ فارن ڈپلومیٹس کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ یہاں غیر محفوظ ہیں۔۔۔ دوسرا یہ کہ جیو بلڈنگ پر اس قدر پتھراؤ کیا جائے کہ آئندہ کسی کو پی۔ٹی۔آئی کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہ ہو سکے۔۔۔۔ان دونوں ہدایات پر عمل ہوتے ہوئے کل عالم نے دیکھا۔۔۔یلغار کرنے والوں کی آنکھوں میں خون اور دلوں میں اس نفرت تھی کہ انہوں راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو یا تو نذر آتش کر دیا ۔۔۔یا پھر تباہ و برباد کر دیا۔۔۔یہاں تک کہ درجنوں پام ٹریز کو جو شہر کی خوبصورتی میں نمایاں تھے۔۔پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیا۔۔۔یہ ’’جہادیوں‘‘ کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم میں بدترین فعل تھا۔۔۔
ایک خبر پورے یقین کے ساتھ گردش میں ہے کہ۔۔۔عمران خان اور شیخ رشید کے درمیان اختلافات نے شدت اختیار کر لی ہے اور شیخ رشید نے اپنی علیحدہ حیثیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے وابستہ نہیں بلکہ ان کی اپنی حیثیت ہے۔۔۔اور وہ "ون مین آرمی" ہیں۔
اب لوگوں کی رائے یہ ہے کہ توقع تو یہ تھی کہ عمران خان نوجوان نسل کو ملک کی تعمیر و ترقی کی ترغیب دیں گے۔۔۔اور نئی نسل کو روشن مستقبل کی راہوں پر گامزن کریں گے۔۔۔لیکن حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔۔۔اور لگتا یہ ہے وہ نئی نسل کو اجاڑانے مشن مکمل کر کے چھوڑیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔