جناب وزیراعظم۔ کچھ وقت ماہرین کے ساتھ گزاریں

بحران کا خاتمہ ماہرین کی مشاورت سے ہوسکتا ہے۔ وزراء کے بیانات سے نہیں۔

مہنگائی کے سامنے بے بس پاکستانی بجٹ سے مزید خوف زدہ ہیں کہ یہ کیا کیا قیامتیں لے کر آنے والا ہے، جنہیں مشکل فیصلے کہا جارہا ہے وہ عام شہریوں پر میزائلوں کی طرح برس رہے ہیں۔ معیشت بد مست ہاتھی کی طرح بازار میں سب کچھ روند رہی ہے۔ اعداد و شُمار بے لگام گھوڑوں کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں۔ روپے کی قدر میں مزید کمی ہورہی ہے۔ ڈالر شہ کے مصاحب کی طرح اترارہا ہے۔ ماہر معیشت کہہ رہے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت 260 روپے فی لیٹر تک جاسکتی ہے۔ مہنگائی اور بڑھے گی۔ اشیائے ضروریہ۔ آٹا۔ چینی۔ گھی کے نرخ اور بالا ہوں گے۔

ملک کی چودہ پارٹیوں کا اتحاد۔ پی ٹی آئی کی دو تین پارٹیوں سے اتحادی حکومت سے زیادہ بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت میں سب شریک ہیں۔ سرکاری گاڑیاں۔ سرکاری رہائش گاہیں۔ سرکاری پیٹرول سب استعمال کررہے ہیںکیونکہ پیسہ ان میں ہی زیادہ ہے۔ اب تو ہمیں مفتاح اسماعیل اور خرم دستگیر پر ترس آنے لگا ہے۔ 

کیا اس اتحاد کے پاس بھی اپنا اور کوئی بہتر وزیر خزانہ نہیں ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومتی وزیر خزانہ پر پھبتیاں کسنا بہت آسان ہوتا ہے۔ لیکن اس کانٹوں بھری مسند پر بیٹھ کر خزانہ سنبھالنا بہت مشکل۔ جناب اسحاق ڈار کا ریموٹ کنٹرول بھی ناکام ہورہا ہے۔ ڈالر خود سر ہورہا ہے۔ گزشتہ 3½سال کی نالائقیوں کی مالا جپنا بھی بے نتیجہ ہورہا ہے۔

ملک جس اقتصادی سمت میں بڑھ رہا ہے معیشت تیزی سے جن گھاٹیوں کی طرف رواں دواں ہے،وہ صرف اس مخلوط حکومت کے لیے ہی خطرناک نہیں ہوگی۔ یہ ملک کے ہر فرد کے لیے سم قاتل ہوگی۔ پی ٹی آئی جو ملک کی اکثریتی پارٹی ہے۔ اس کو بھی اس خراب معیشت کے تھپیڑے برداشت کرنے ہوں گے۔ مہنگائی پی ٹی آئی کا جھنڈا دیکھ کر استثنیٰ نہیں دے گی۔ اور جیسا کہ پی ٹی آئی والے یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ پھر بر سر اقتدار آنے والے ہیں۔ وہ ذرا یہ بھی سوچیں کہ اگر ایسا ہوا تو انہیں ملکی معیشت کس حالت میں ملے گی۔ شوکت ترین صاحب کے پاس بھی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ وہ اس خراب تر دیمک زدہ معیشت کو پھر سنبھال لیں گے۔

اس وقت سب کے سامنے پاکستان اور صرف پاکستان ہونا چاہئے۔ صرف ملک کا مفاد۔ اس اقتصادی بحران سے ملک کو نکالنا ہم سب کے مفاد میں ہے۔ مسئلے کتنے ہی بڑے بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی سب سے اشرف مخلوق انسان سے بڑے نہیں ہوسکتے۔ انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ قدرت نے اسے ایسی اہلیت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ سنگین سے سنگین صورتِ حال پر قابو پاتا رہا ہے۔ اس وقت اور کئی ممالک بھی ایسے حالات سے دوچار ہیں۔ وہ کیا اقدامات کررہے ہیں۔ کونسے راستے اختیار کررہے ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بیکراں وسائل دیے ہیں۔ 

ہماری منصوبہ بندی میں ہمارے قدرتی ۔ معدنی ۔ زرعی وسائل شامل ہونے چاہئیں۔ ہمیں صرف آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔ یہاں سے تو صرف قرضوں کا مزید بوجھ مل سکتا ہے۔ شمالی علاقوں میں پہاڑوں میں قیمتی جواہر موجود ہیں۔ تھر میں کوئلہ اور ہیرے ہیں۔ زمینیں سونا اگلتی ہیں۔ کپاس۔ گندم۔ گنا۔ چاول اور بہت کچھ۔

وزیر اعظم عمران خان کو نیازی کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دینے کی بجائے ایک دن ملک کے زرعی ماہرین کے ساتھ بیٹھ جائیں ۔ واہگہ سے گوادر تک اس ماں دھرتی کی زرخیزی کا جائزہ لیں۔ کیا ہورہا ہے۔ کیا ہوسکتا ہے۔ کہاں کیا کمی ہے۔ بنیادی طور پر زرعی ملک کو گندم کیوں درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ دالیں باہر سے کیوں منگوائی جارہی ہیں؟ حال پر بات کریں۔ ماضی کو فی الحال بھول جائیں۔ آپ حال میں سانس لے رہے ہیں۔ مستقبل میں آپ کو مجھے زندہ رہنا ہے۔

ایک پورا دن وزیر اعظم ملک کے اقتصادی ماہرین، یونیورسٹیوں کے شعبہ کامرس، زراعت، اکنامکس کے ساتھ گزاریں۔ یہ لوگ غیر جانبدار ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے۔ ارکان اسمبلی کی طرح یہ غفلت میں مزے نہیں لیتے۔ درد مند پاکستانی ہیں۔ سیاستدانوں سے کہیں زیادہ انہیں ملکی معیشت کی فکر ہے۔ یہ آپ کو فوری علاج بھی بتاسکتے ہیں اور طویل المیعاد بھی۔ دیرپا پائیداری بھی سکھا سکتے ہیں۔ بس یہ کرنا ہوگا کہ آپ اور آپ کے وزراء خاموشی سے خلوص سے ان کی ماہرانہ تجاویز سنیں۔ اپنے بھاشن دینے نہ لگ جائیں۔

ایک روز آپ اسٹیٹ بینک کے گورنر۔ بینکوں کے سربراہوں۔ اور غیر ملکی کرنسی ڈیلرز کے ساتھ بیٹھیں ان سے مشاورت کریں۔ وہ عملاً اس بحران کا مقابلہ کررہے ہیں۔ وہ اس بحران سے نکلنے میں حقیقی مدد کرسکتے ہیں۔ایک روز وقت نکالیں۔ ملک کے ان ترغیبی مقررین Motivational Speakers کی باتیں سنیں۔ جو نوجوانوں میں اقبال کی آہِ سحر بانٹتے ہیں۔ امید کی ساقی گری کرتے ہیں۔ ان کے لیکچر سننے کے لیے اپنی ٹیم کو بھی ساتھ بٹھائیں۔ ممکن ہو تو آصف زرداری صاحب کو بھی زحمت دیں۔ہمارے سیاسی رہنمائوں۔ وزراء کے ذہن تھک چکے ہیں۔ وہ پرانے فارمولوں سے مکھن نکالنے کے عادی ہیں۔

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

پرانی سیاست گری خوار ہے

پرانے سانچے اب کارآمد نہیں ہیں۔ ان میں ملک کو ڈھالنے کی کوشش نہ کریں۔ پاکستان میں ایک سے ایک بڑا دماغ موجود ہے۔ باہر کی دنیا ان کے مشوروں پر عمل کرکے آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک ہفتہ یہ کرکے تو دیکھیں۔ آپ خود کو ایک بدلا ہوا انسان پائیں گے۔

۔۔۔۔۔

آخر میں ان حقیقی ہیروز کی باتیں۔ جو اپنی جانیں نثار کرکے ملک کو لازوال کرگئے۔ ایئر کموڈور ایم ایم عالم۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید۔ حوالدار لالک جان شہید۔ یہ تین کتابیں مجھے نیا حوصلہ دے گئی ہیں۔ حالیہ بحرانوں سے غالب آنے والی مایوسی دور کرگئی ہیں۔ اسکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر نے عقیدت میں ڈوب کر یہ کتابیں قلمبند کی ہیں۔ وطن عزیز کے یہ عظیم فرزند کیسے چیلنجوں سے نبرد آزما تھے۔ انہوں نے اپنی ذات۔ اپنے خاندان۔ اپنے اثاثوں کی فکر نہیں کی۔ صرف اور صرف اپنی سر زمین کی سلامتی کو پیش نظر رکھا۔ مصلحت سے ماورا صرف اپنے ہم وطنوں کے تحفظ کا سوچا۔ ان جرات مندوں کی بدولت ہی ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں۔ زاہد یعقوب عامر صاحب۔ 

بہت ممنون۔ آپ کے رت جگے۔ ایک ایک سطر سے جھانک رہے ہیں۔ آپ ہم وطنوں میں امید کی روشنی بانٹ رہے ہیں ۔ بہت شکریہ۔ کتابیں ہم بھی تصنیف کرتے ہیں۔ مگر ان کتابوں کے سامنے ان کی حیثیت کچھ نہیں۔ آپ نے ان ہیروز سے قارئین کو متعارف کروایا ہے۔جو اس سر زمین کے تابندہ ستارے ہیں۔ جو آفاق کو تابناک بنارہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔