سابق اور موجودہ حکمرانوں میں فرق نہیں!

گزشتہ سات عشروں کا معاشی ریکارڈ اگر سامنے رکھا جائے تو واضح نظرآتاہے کہ ہر حکومت نہ صرف اشرافیہ کو نوازتی رہی ہے بلکہ جب بھی ملک بحرانی صورتحال سے دوچارہوا تو بجائے اس کے کہ اس صورت حال میں نوازی جانےوالی اشرافیہ سے بھی کچھ قربانی کا تقاضا کیا جاتابلکہ برسراقتدار حکمران خوا ہ وہ جرنیل ہوں یا سیاستدان یا بیورکریٹ ،انہوں نے اس صورتحال میں عوام ہی کو قربانی کا بکرابنایا۔

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی گزشتہ سال کی رپورٹ ملاحظہ کیجئے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے 26کھرب 60ارب روپے اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات ملکی معیشت کا چھ فیصد ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طاقتور طبقہ اپنے منصفانہ حصے سے زیادہ کے لئے اپنا استحقاق استعمال کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مراعات سے سب سےزیادہ فائدہ کارپوریٹ سیکٹر اُٹھاتاہے۔

ایک تخمینے کے مطابق اس نے سات کھرب 18ارب روپے کی مراعات حاصل کی ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات حاصل کرنے والا ملک کاامیر ترین طبقہ ہے جو ملک کی مجموعی آمدن کے نو فیصد کامالک ہے، جاگیر دار اور بڑے زمیندار جو آبادی کے1.1پر مشتمل ہیں ملک کی 22فیصد قابلِ کاشت زمین کے مالک ہیں، پاکستانی پارلیمنٹ میں دونوں طبقوں کی مضبوط نمائندگی ہے، بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو مراعات کی فراہمی کے ذمہ دار تھے وہی مراعات وصول کررہے ہیں۔

 ایک ہاتھ سے وہ مراعات دے رہے ہیں لیکن دوسرے ہاتھ سےخود ہی وصول کررہے ہیں۔ ملک کے غریب ترین ایک فیصد کی آمدن صرف 0.15فیصد ہے۔ مجموعی طور پر، 20فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس قومی آمدنی کا 49.6فیصد ہے جب کہ بیس فیصد غریب ترین آبادی کے پاس قومی آمدنی کا صرف سات فیصد ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک کا متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں جنوبی ایشیا میں پاکستان آخر سے دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے پر افغانستان ہے۔رپورٹ میں بعض اداروں کے حوالے سے بھی کہا گیاہے کہ زمین، سرمایہ، انفراسٹرکچر اور ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں اربوں روپے کی مراعات لے رہے ہیں۔

اشرافیہ کی تعریف تو مختلف مفکرین نے مختلف انداز میں کی ہے لیکن ان کا لب لباب یہ ہوسکتاہے کہ وہ تمام لو گ جودولت،ثروت ،عہدوں ،رتبے اور مختلف اثر ورسوخ کے ہوتے ہوئے جاہ وجلال کے مالک ہیں وہ اشرافیہ یعنی بالادست طبقات میںشمار ہونگے،پاکستان کے تناظرمیں ان میں غالب اکثریت اُن کی ہے جو ناجائز راہ ورسم کی وجہ سے ان طبقات میں شامل ہوگئے ہیں یا مزید تواناہوگئے ہیں۔ظاہر ہے اس میں بنیادی عامل سیاسی اثرورسوخ ہے،جسے سول وفوجی بیوروکریسی ،جاگیردار وسرمایہ دار ہر دورخواہ وہ آمرانہ ہویاسول بروئے کار لاتے رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج ان تمام طبقات نے ایک ایسی مافیا کی شکل اختیارکرلی ہے جوبظاہر مخالف نظریات رکھنے کے، طبقاتی طورپر ایک دوسرے کوسہارادئیے ہوئے ہیں۔

 یہ طبقات ایک حوالے سے یک جان ویک سو ہیں کہ ملک وملت کی جوبھی صورتحال ہو ا س میںایک دوسرے کو قربانی سے بچاتے ہوئے عوام ہی کو قربانی کابکرابناناہے۔اگر یہ سب کا مشترکہ ایجنڈانہ ہوتاتو آج ہم قیام پاکستان سے اب تک کے ادوارمیں سے کم ازکم ایک دو کاحوالہ تو دے پاتے ،کہ ان میں عوامی ترقی کیلئے یہ یہ’ کارنامے‘ سرانجام دئیےگئے ،نیز اگرایسا ہوا ہوتا تو اس دورکے بعد آنے والوں کیلئے بڑی مشکل ہوتی کہ وہ اُس ٹریک سے ہٹتے جس پر سابق حکومت ہوتی ۔

بھارت سمیت دیگر ممالک کی مثالیں اس حوالے سے موجود ہیں،بھارت میں ترقی کا آغاز کانگریس نےکیا لیکن بعدازاں بی جے پی جیسی انتہاپسند جماعت بھی ترقی کےاس سلسلے کوآگے لیکر گئی بلکہ اس میں مزید نام کمایا۔ ہم نے جس رپورٹ کاحوالہ دیا ہے یہ رپورٹ عمران خان کے دور میں سامنے آئی تھی اس سلسلے میں یو این ڈی پی کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور علاقائی چیف، کنی وگینا راجا نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور وزراسے اس رپورٹ کی فائنڈنگ پر بات چیت کی تھی۔ 

جس کے بعداس نمائندے کاکہنا تھا کہ پاکستانی رہنماؤں نے اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اِس حوالے سے کارروائی کرنے کا عہد کیا ہے۔عرض یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے سامنے جب غیرملکی اداروں کے وفود آتے ہیں تو یہ چونکہ اپنی ناک تلے اشرافیہ کو نواز نےسے انکار نہیں کرسکتے ،تویہی کہتے ہیں جو عمران خان نے کہا ،اب یہی شہباز شریف کہیں گے اور اسی طرح اشرافیہ مزے کرتی رہےگی اور بیچارے عوام قربانی دیتے رہیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔