19 جون ، 2022
پاکستانی نژاد جج زاہد قریشی کے عہدہ سنبھالنے سے امریکا میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔
نیوجرسی ڈسٹرکٹ کورٹ جج کا عہدہ سنبھالنے والے زاہد قریشی پہلے امریکی مسلم ہیں جو اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں، وہ پہلے ایشیائی امریکی بھی ہیں جو ریاست کے فیڈرل بینچ کا حصہ بنے۔
صدربائیڈن نے پچھلے برس اپریل میں زاہد قریشی کو جج نامزد کردیا تھا اورجون میں سینیٹ نے 16 کے مقابلے میں 81 ووٹوں سے ان کے نام کی توثیق کردی تھی۔
نیوجرسی میں ڈسٹرکٹ جج کا منصب سنبھالنے سے پہلے زاہد قریشی اسی ریاست میں اسسٹنٹ اٹارنی تھے، پرائیوٹ پریکٹس کے بعد زاہد قریشی نے نیوجرسی ہی کے سُوپیریئرکورٹ سے وابستہ جج ایڈوین اسٹرن کے لاء کلرک کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں اور پھر نیوجرسی ہی میں اسسٹنٹ اٹارنی کامنصب سنبھالا تھا۔
جان جے کالج آف کرمنل جسٹس سے فارغ التحصیل زاہد قریشی نے رٹگرز لاءاسکول سے جے ڈی یعنی جیورس ڈاکٹرکی ڈگری حاصل کی تھی، وہ ایک عرصہ تک امریکی فوج میں ملٹری پراسیکیوٹر کےعہدے پربھی فائزرہے ہیں۔
زاہد قریشی کے والد ڈاکٹر نثار قریشی 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں پاکستان کے شہر گوجرخان سے نیویارک منتقل ہوئے تھے، اپریل 2020 میں کورونا سے انتقال تک ڈاکٹر نثار اسی شہر میں طبی شعبے سے وابستہ رہے۔
زاہد قریشی اعلیٰ تعلیم یافتہ سہی، فیڈرل جج کے طورپران کی تعیناتی کرشمے سے کم نہیں، ان کی نامزدگی سینیٹر کُوری بُوکر کی وجہ سے ممکن ہوئی جو خود اس بات پر حیرت زدہ تھے کہ اب تک امریکا میں کوئی مسلم وفاقی جج کیوں نہیں بن سکا؟
صدر جوبائیڈن کے برسر اقتدار آنے سے چند ماہ پہلے سینیٹر کُوری بُوکر نیویارک میں امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
اے پی پیک کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز نے ان سے گلہ کیا تھا کہ قابل ترین شخصیات موجود ہونے کے باوجود امریکا میں ایک بھی مسلم فیڈرل جج نہیں۔
رہوڈز اسکالرشپ پر آکسفورڈ کے کوئنز کالج سے امریکی تاریخ میں ڈگری حاصل کرنے والے کُوری بُوکر کو یہ تلخ حقیقت جان کر اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیاتھا۔
سیاست سے پہلے وکالت کرنے والے کُوری بُوکر کا تعلق نیوجرسی ہی سے ہے، انہیں ریاست کے پہلے افریقی امریکی سینیٹر ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے، بُوکرکے والدین پہلے افریقی امریکی ہیں جو آئی بی ایم میں ایگزیکٹو کے عہدے تک پہنچے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ جب بُوکر نے سنا کہ آج تک کوئی مسلم امریکی وفاقی جج نہیں بن سکا تو انہوں نے ڈاکٹر اعجاز سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی ریاست میں جج کی جو جگہ خالی ہوئی ہے اس پرانتہائی قابل مسلمان کو نامزد کریں گے۔
چند ہی ماہ میں سینیٹربُوکر نے اپنے الفاظ کوعملی جامہ پہنادیا جب انہوں نے پاکستانی امریکی زاہد قریشی کو فیڈرل جج کے عہدے پر تعینات کرنےکے لیے صدر بائیڈن سے ان کے نام کی سفارش کردی، سینیٹر بُوکر نے اس وقت کہاتھاکہ 'ڈاکٹراعجاز احمد نہ ہوتے تو ہم مل کر امریکا میں یہ تاریخ رقم نہ کرپاتے'۔
انتخابی مہم کےدوران خود جو بائیڈن نے بھی ڈاکٹر اعجاز احمد سے کہا تھا کہ مسلم امریکنز الیکشن میں کلیدی کردار کے حامل ہوسکتےہیں، یہ مضبوط اور متنوع کمیونٹی ہے مگر ایک ایسی آوازبھی جسے وہ نمائندگی نہیں مل سکی جس کی مسلم امریکی کمیونٹی لائق ہے۔
جوبائیڈن نے اے پی پیک کے چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے اس لمحے کہا تھاکہ 'لوگ آپ کی طرف دیکھتے ہیں، وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کسے پسند کرتے ہیں کیونکہ لوگوں کومعلوم ہے کہ آپ لوگوں کو جانتے ہیں، لوگ جانتے ہیں کہ آپ واقف ہیں کہ امیدوار ہیں کون؟ آپ کی خوبی یہ ہےکہ آپ دوسروں کی توثیق کرتے ہیں'۔
ساتھ ہی جو بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ اگر منصب ملا تو ' اپنی ہر ممکن کوشش کروں گا کہ آپ کوشرمندہ نہ ہونے دوں۔'
سینیٹر کُوری بُوکر کی طرح جوبائیڈن نے بھی اپنے الفاظ کو سچ کر دکھانے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کی تھی۔
نیوجرسی کے گورنر فل مرفی کے لیے بھی زاہد قریشی کی تقرری ایک غیرمعمولی اقدام سے کم نہیں۔ گورنر فل مرفی نے کہا کہ 'جج زاہد قریشی کی وجہ سے قیادت کا وسیع تجربہ وفاقی بنچ میں آیا ہے اور ہم زاہدقریشی کےنام کی سفارش پر اے پی پیک کےشکرگزار ہیں۔'
امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں مسلمانوں سے متعلق جو رویہ اپنایا گیا،اس میں یہ توقع کرنا تقریباًناممکن تھا کہ زاہد قریشی جیسی قابل شخصیات وفاقی جج کا عہدہ سنبھالیں گی تاہم ڈیموکریٹ جوبائیڈن کےدور میں یہ اقدام غیرمتوقع نہیں۔
زاہد قریشی کی تعیناتی کا مختلف حلقوں کی جانب سے خیر مقدم اپنی جگہ ، اس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا کیا ہے کہ آخر امریکی تاریخ میں کسی مسلم امریکن شخصیت کو یہ عہدہ حاصل کرنے میں ڈھائی سو سال کیوں لگے؟ ساتھ ہی یہ امید بھی پیدا کی ہے کہ جیسے زاہد قریشی نے وفاقی جج بن کرتاریخ رقم کی ہے ،نومبر میں اب آصف محمود کانگریس کاالیکشن جیت کر پہلے پاکستانی امریکی رکن کانگریس ہونےکی تاریخ بھی رقم کریں گے۔