کراچی ناراض ، عوام کانظام اور سیاست پر عدم اعتماد

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 240 کے ضمنی انتخاب نے یہ پردہ چاک کردیا کہ کراچی کے عوام کی اکثریت ناراض ہے اور غیرجانبدار نظر آرہی ہے۔ضمنی انتخاب میں کوریج کے دوران کئی پولنگ اسٹیشنوں اور علاقو ں کا مشاہدہ کیا اور لوگوں سے بات چیت کی ۔

کچھ نے کہا کہ ووٹ دیں یا پیٹ کی فکرکریں، یہ تو ووٹ لے کر ہمارا ہی استحصال کرتے ہیں۔ صورت حال یہ نظر آئی کے دوپہر بارہ بجے کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کیا اور پریذائڈنگ افسران اور عملے سے تفصیلات سے پتہ چلا کہ مشکل سے ایک فیصد ووٹر ٹرن آوٹ نظر آیا۔لانڈھی اور کورنگی کے مختلف علاقوں میں لوگوں کا الیکشن کے عمل سے لاتعلقی بہت کچھ بیان کررہا تھا۔

 میرا بچپن ان علاقوں میں گزرا ہے یہ وہ علاقے ہیں جہاں ایک زمانے میں شہر کے ، امراء، مڈل کلاس اور غریب طبقہ ایک ساتھ رہا کرتے تھےلیکن وقت کے ساتھ بگڑتی سیاسی اور انتظامی صورت حال سے مایوس ایک بڑی تعداد ان علاقوں کو چھوڑ گئی ہے۔ یہ اب بھی لاکھوں کی تعداد میں کاروباری، ہنرمند اوردفاتر میں ملازمت پیشہ افراد پر مشتمل آبادی ہے ۔

دوپہر تین بجے تک ڈی آر او نے جو صورت حال بتائی اس سے پتہ چلا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ پانچ فیصد ہے۔ پولنگ اسٹیشن کا عملہ اختتام تک ووٹرز کا انتظار کرتا رہا لیکن خلاف توقع گھروں میں موجود خواتین نے بھی انتخابی عمل سے لاتعلقی کا بھرپور اظہار کیا اور نتائج جو سامنے آئے تو پانچ لاکھ 29 ہزار 855 رجسٹرڈ ووٹرز میں سے صرف 44 ہزار 388 افراد نے حق رائے دہی استعما ل کیا جس میں چار سو چالیس ووٹ خارج ہوگئے ۔ 31ہزار 677 مرد حضرات نے ووٹ ڈالے جبکہ 12 ہزار 711 خواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

ایک بات یہ مان بھی لی جائے کہ عام تعطیل نہ دینے کی وجہ سے ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا ، یہ بھی مان لیں کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بھی حصہ نہیں لیاان کا ووٹر نکلتا تو بھی مزیددس فیصد اضافہ کرکے دیکھ لیں تو اٹھارہ فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ نظر آئے گا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک بڑی تعداد عوام کی سیاسی نظام سے مایوس ہے اور خطرناک حد تک جمہوری نظام حکومت کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگی ہے شاید اس کی ایک بڑی وجہ ان کی اظہار رائے کا سلب ہوجانا ہے ۔

دوسری جانب رہی سہی کسر گزشتہ پندرہ سالوں میں صوبائی اور شہری حکومت نے پوری کردی ۔ ان علاقوں میں پینے کے پانی کا مکمل نیٹ ورک موجود ہونے کے باوجود پانی کی فراہمی جبراً روکی جاتی ہے اوراس میں سرکاری ، سیاسی اور دیگر اداروں کے افراد ملوث ہیں ۔ انہی لائنوں کا پانی واٹر ٹینکرز کے ذریعے مہنگے داموں عام آدمی کو فروخت کیا جارہا ہے اوریہ سب عمل ایک منظم مافیا کا روپ اختیار کرچکا ہے۔ پانی ہی نہیں سیوریج کا نظام تباہ حال ہے کھیلوں کے میدان اور تفریحی پارکس اجڑے ہوئے ہیں یا قبضہ مافیا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔

کچرے کے ڈھیر بتارہے ہیں کہ صفائی کے لیے اداروں کا کروڑوں کا بجٹ کہاں جارہاہے۔حکومت کی جانب سے پبلک ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے ۔ تعلیم کے لیے کے ایم سی یا سندھ حکومت کے اسکولوں اور کالجز فنڈز اور عملے کی عدم دستیابی کی شکایات ہیں ۔صحت سے متعلق اسپتالوں میں مکمل سہولتیں فراہم نہیں ہیں نجی شعبے کے اسپتال لوگوں سے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔یہ وہ مسائل ہے جو سطح پر نظر آتے ہیں جبکہ اندرون علاقوں میں گلیوں میں گردوغبار اور سیوریج تعفن زدہ ماحول پیش کرتا ہے۔

ان سب مسائل کی موجودگی میں لوگوں کا جمہوری ، انتخابی اور سیاسی عمل سے تشویشناک حد تک دور ہونا یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔