بلاگ
Time 07 جولائی ، 2022

معرکہ۔ بہتر اور ابتر حکمرانی کے درمیان

ہمیں سوچنا تو چاہئے کہ آزادی کا 75 واں سال ڈائمنڈ جوبلی سال انبساط۔ نشاط۔ مسرت کی بجائے کرب۔ درد۔ تشویش میں کیوں گزر رہا ہے۔ غالبؔ سے رجوع کریں تو وہ کہتے ہیں،

قرض کی پیتے تھے مے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

میاں۔ فاقہ مستی رنگ لارہی ہے۔ وہ تو یہ کہہ کر عالم مدہوشی میں چلے جاتے ہیں۔ مگراقبالؔ کی آرزو یہ ہے،

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

اقبالؔ کی تمنّا پوری ہورہی ہے۔ طوفان آنے والاہے۔ بحر کی موجوں میں اضطراب برپا ہو رہا ہے۔ بیداری اور آگہی کی فصلیں شہرشہر پک رہی ہیں۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے۔ پی ٹی آئی کا کہ وہ کروڑوں روپے جلسوں ریلیوں پر خرچ کرکے پاکستانیوں کو بیدار کررہے ہیں۔ اپنے حقوق کیلئے، اپنے آئین کیلئے، قوانین پر عملدرآمد کیلئے۔ اس بیداری کا فائدہ خود اس پارٹی کو کتنا ہوگا۔ ملک کو کتنا ہوگا۔ 

دوسری پارٹیوں کو کتنا ہوسکتا ہے۔ دانشور اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔ زمین ہموار ہورہی ہے۔ اب یہ ہم میں سے ہر ایک پر منحصر ہوگا کہ اس ہموار زمین میں ہم کیا بوتے ہیں ؟ ایسی بیداری پہلے بھی 1946 میں ہوئی۔ ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ 1970میں ہوئی۔ منصفانہ انتخابات ہوئے۔ ملک دو لخت ہوگیا۔ پھر 1999 میں ہوئی۔ ایسی تحریکوں سے عام انسانوں کے فہم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب تو عام میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا بھی ہے۔ عالمی میڈیا پر جن سیلابوں کے سامنے بند باندھے جاتے ہیں۔ وہ ندیاں فیس بک، واٹس ایپ ، ٹوئٹر، انسٹا گرام پر کھل کر بہتی ہیں۔ یہ کرب ہے، اضطراب ہے، تشویش ہے، لیکن میرے نزدیک ایک بیداری ہے، جس کی طلب اس 75ویں سال میں ناگزیر تھی۔ 75سال میں ہم نے انتہائی مشکل مسافتیں طے کی ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ ان مشکلات نے ہمیں کندن بنادیا ہے۔ اتنا باشعور سماج پہلے نہیں تھا۔

اب اصل معرکہ بہتر اور ابترحکمرانی کے درمیان ہے۔ ہرچند کہ بہت سے تجزیہ کار اسے جمہوریت اور آمریت کے درمیان کھینچ کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ اسے سول ملٹری کشمکش قرار دے کر اپنی عافیت گاہوں میںبیٹھ جاتے ہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کبھی حاوی ہوتی ہے تو یہ ابتر حکمرانی کا نتیجہ ہی ہوتا ہے۔ بہتر حکمرانی میں تو کسی مداخلت کا تصور ہی نہیں ہوسکتا۔اس بیداری سے پی ٹی آئی کا مقصود اگر چہ محدود ہے کہ 17جولائی کو یہ جذبات۔ نعرے۔ فہم ووٹ میں بدل کر بیلٹ بکس میں چلا جائے۔ بیداری اتنی ہو کہ حکومتی جبر، برادری غلبہ، مافیا زور، دھاندلی سب پست ہوجائیں۔ اکثریت اتنی طاقت ور ہو کہ ڈالر، درہم عاجز ہوجائیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا فائدہ اس میں ہے کہ عوام کی یہ بیداری، سماجی شعور، انقلابی سوچ، مزاحمتی آگاہی صرف 17جولائی کے امتحان میں ہی نہیں آئندہ دس سے پندرہ برس کے امتحانوں میں بھی درست اور غلط میں امتیاز کرنے کی طاقت دے۔ یہ بیداری تاریخ کے اہم موڑوں پر ہی قوموں کو نصیب ہوتی ہے۔ 75ویں سال میں اسے مواصلاتی ٹیکنالوجی، فاصلاتی رابطے ہی ممکن اور نتیجہ خیز بنارہے ہیں۔ اس سے دیر پا فائدہ اٹھانے کے لیے پی ٹی آئی کو بھی طویل المیعاد حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہئے۔ دوسری ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو بھی۔ اور بالخصوص تحقیقی اداروں یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس کو۔ ایسی روشن خیالی کے کئی پہلو ہوتے ہیں کہ لوگوں میں خیر و شر کی تمیز کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ 

عام آدمی دیوار کے اس طرف بھی دیکھنے لگ جاتا ہے۔ درست فہم رکھنے والے ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں۔ سنجیدہ معاملات کی قبولیت بڑھ جاتی ہے۔ معروضی فکر کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ جذباتی اندازِ فکر اقتصادی نقطۂ نظر میں تبدیل ہوتا ہے۔ اپنے دین کے شعائر سے تعلق میں مزید قربتیں جنم لیتی ہیں۔ علاقائی تعصبات دم توڑ دیتے ہیں۔آپ اگرغور کریں تو مہنگائی آپ کو معاشی انتظام سکھاتی ہے۔

محدود سوچ رکھنے والے تو اس آگہی کی بیکرانیوں کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ یہ شعور صرف کسی ایک پارٹی کے کارکنوں تک محدود نہیں رہا۔ عام پاکستانی کا ذہن بھی اس سے متحرک ہورہاہے۔ اسے پیٹرول کی ہوش اڑادینے والی قیمتوں، سبزی پھلوں کے آسمان کو چھوتے نرخوں سے وحشت تو ہورہی ہے مگر وہ یہ بھی سوچنے پرمجبور ہے کہ اس کے حکمران۔ اس کے لیڈر مسائل کے سامنے عاجز ہورہے ہیں۔ مسئلے کبھی انسان سے بڑے نہیں ہوسکتے۔ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس نے تو بڑے بڑے بوجھ اٹھائے ہیں جو پہاڑ نہ اٹھاسکے۔ ذمہ دار انسان اپنی ساری خداداد صلاحیتیں نیک نیتی سے استعمال نہیں کررہے۔ ان کی خواہشات ذاتی ہیں۔ ان کی آرزوئیں اپنی فلاح تک محدود ہیں۔ اس لیے وہ وقت کا سامنا نہیں کر پارہے ہیں۔

قومیں مصائب کا مقابلہ متحد ہوکر کرتی ہیں۔ مگر یہاں تو ملبہ ایک دوسرے پر ڈالا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا 98فی صد اس وقت جبر، مہنگائی،مشکل ترین معاشی حالات کا سامنا کررہا ہے۔ حکمران پورے پاکستان کے امیر ترین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پنجاب سے ہوں، سندھ سے، کے پی کے سے اور بلوچستان سے۔یہ وہاں کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سرداروں، نوابوں کی نسلیں ہیں جنہیں پشت در پشت آسانیاں اور عیاشیاں ورثے میںملتی رہی ہیں۔ راحتیں ان کے ساتھ گھر میں بھی ہوتی ہیں۔ کروڑوں کی گاڑیوں میں بھی۔ وزارتوں کے دفاتر میں بھی۔ اور منسٹرز کالونی میں بھی۔

ان سے کسی خیر کی امید عبث ہے۔ اسلئے ہمارے تحقیقی اداروں، درسگاہوں، یونیورسٹیوں کو یہ تاریخی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی کہ وہ لوگوں میں پھیلتی بیداری، توانائی کو مختلف شعبوں میں بانٹیں۔ اس لمحے کو اپنی گرفت میں لیں۔ اپنے دکھ کو طاقت میں ڈھالیں۔ ان کے ذہنوں کو پائیدار استحکام کیلئے تیار کریں۔ یہ بیداری ہر پاکستانی میں ہے۔ ریٹائرڈ فوجی بھی بیداری کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ ایک مثبت اور روشن پہلو ہے۔ اہل دانش اپنی وہ ذمہ داری نبھائیں جو انہیں قدرت نے عطا کی ہے۔ ایک منظّم پروگرام، خود دار، خود مختار،خوشحال پاکستان کی طرف جانے کا راستہ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔