17 جولائی ، 2022
آج پنجاب میں بڑا انتخابی یدھ پڑنے کو ہے۔ 20 نشستوں پہ ضمنی انتخابات میں جو فریق چار پانچ نشستیں زیادہ لے گیا، نہ صرف پنجاب اس کے ہاتھ ہوگا، بلکہ وفاق اور آئندہ انتخابات کا تعین ان مٹھی بھر صوبائی حلقوں سے ہوجائے گا۔ دس بارہ امیدوار تو وہ ہیں جو گزشتہ انتخابات میں دونوں پارٹیوں کے مقابلے میں جیتے تھے اور اب کی بار تحریک انصاف چھوڑ کر مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ باقی وہ ہیں جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر منحرف ہوئے اور ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔
تحریک انصاف کا مقابلہ اپنے ہی منحرفین سے ہے جبکہ ن لیگ ان کا اخلاقی بوجھ اُٹھا کر تحریک انصاف کی جیتی نشستیں چھین لینے کی تگ و دو کررہی ہےلیکن غضب یہ ہے کہ تحریک انصاف نے بھی کچھ جگہوں پر ن لیگ کے منحرفین کو ٹکٹ دیا ہے اور زیادہ تر نشستوں پر مقابلہ منحرفین ہی میں ہے۔
یوں عرف عام میں لوٹے قرار دیے نمائندگان ملک کے مستقبل قریب کی سیاست کا تعین کریں گے۔ اوپر سے ایسی خوفناک انتخابی مہم چلی کہ سیاست کے پلے کوئی اصول نہ رہا۔ انتخابات سے چند روز قبل سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے نے عمران خان کے بیرونی سازش کے بیانیے سے کافی ہوا نکال دی، لیکن اس کا فائدہ پہلے ہی عمران خان کو مل چکا تھا۔
مہنگائی کا بوجھ اس بار وزیراعظم شہباز شریف پر تھا اور دو روز قبل انہوں نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر کے کچھ بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی بھی تو اثرات بعد میں آنے ہیں اس دوران عمران خان کے بیانیے نے ایک بڑا یوٹرن لیا جس کے وہ بڑے ماہر ہیں۔ پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ یا فوج کے سیاست میں نیوٹرل ہونےکی مخالفت کر تے تھے اور مسلسل دباؤڈال رہے تھے کہ فوج ان کا ساتھ کیوں نہیں دے رہی۔ اب کچھ دنوں سے وہ XY کا ذکر کرتے ہوئے فوج سے انتخابات میں نیوٹرل رہنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یوں ایک طرح سے وہ پی ڈی ایم اور نواز شریف کے مؤقف پر آگئے ہیں، جبکہ فوج بھی نیوٹرل رہنے پہ مصر ہے۔ سیاسی کشیدگی کی انتہا پہ تینوں فریقین میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں غیر جانبدار کردار بارے اتفاق رائے حیران کن طور پر خوشگوار ہے۔
اس سے پہلے کہ فریقین اس متفقہ بنیاد پر ٹھنڈے دل سے غور و خوض کرتے، انتخابی معرکہ آن پڑا ہے جس کے نتیجے میں ملک استحکام یا عدم استحکام کی طرف جاسکتا ہے۔ اگر مسلم لیگ کا پلڑا ان ضمنی انتخابات میں بھاری رہا تو ملک سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کی طرف چل نکلے گا اور اگر تحریک انصاف نے اپنی خالی کی ہوئی نشستیں جیت لیں تو پھر سیاسی عدم استحکام بڑھ جائے گا اور معاشی بحالی کا عمل اُلٹ پلٹ جائے گا۔ خیر سے آئی ایم ایف سے اسٹاف کے لیول پہ معاہدہ ہوگیا ہے اور اگست میں بیرونی مالیاتی ’’امداد‘‘ کے سوتے کھل جائیں گے جس سے ملک دیوالیہ ہونے سے فی الوقت بچ سکتا ہے۔ لیکن اگر سیاسی عدم استحکام بڑھا تو پھر معیشت کی بھی خیر نہیں ہوگی۔
بدقسمتی سے عمران خان پاکستان کے سری لنکا بننے کی بری خبر دے رہے ہیں، شاید وہ ہی اس کے بڑے محرک ہوں گے۔ معروضی تقاضہ سیاسی استحکام کا ہے تاکہ معیشت سنبھل سکے، فوری انتخابات کا نہیں جو اپنے وقت پر ہوں تو کسی بھی فریق کے لئے برا نہیں۔ عمران خان زیادہ مقبول تو ہوئے ہیں، لیکن ان کے پاس کسی بھی سطح پر کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں۔
ساری تحریک انصاف کے پاس صرف ان کی طلسماتی پاپولسٹ شخصیت کا جادو ہے جو ہر بار نہیں چل سکتا اور ناکافی ہے۔ دوسری جانب اتحادی حکومت کی کابینہ نے ڈپٹی اسپیکر،ا سپیکر، وزیراعظم اور صدر کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے دوران آئین و قانون کی پامالی کے جرم میں آئین سے غداری کا مقدمہ (آرٹیکل6) قائم کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دے کر ایک انتہائی قدم اٹھایا ہے۔ اگر سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو غدار قرار دے کر آرٹیکل چھ کا اطلاق کرنا شروع کیا تو سیاست بچے گی نہ آئینی حکمرانی۔ فواد چوہدری نے صحیح کہا ہے کہ پھر پھانسی کی رسیاں (پھندے) کم پڑجائیں گے۔
البتہ تحریک انصاف کا جمہوری طرز عمل سے آئینی انحراف اور آئین شکنی اس نوجوانوں اور مڈل کلاس کی جماعت کے لیے بڑا تازیانہ ہے۔ میں نے تحریک انصاف کے بانیوں میں سےایک حامد خان ایڈووکیٹ سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیسی پارٹی بنائی جو بالکل جمہوری نہیں (عوامی ضرور ہے) تو انہوں نے کہا ہم نے سوچا تھا کہ ایک سینٹر لیفٹ یا سوشل ڈیموکریٹک طرز کی جمہوری پارٹی بنائیں گے جو اوپر سے لے کر نیچے تک منتخبہ ہوگی اور ایک شخصیت کی مرہون منت ہونے کی بجائے ایک منظم جمہوری ادارہ ہوگی۔ لیکن اب لگتا ہے کہ عمران خان کی شخصیت بہت بھاری ہوگئی ہے اور پارٹی کہیں کم ہوگئی ہے۔
اب وہ وقت ہے جب سیاستدان ہی تمام تر حالات کے ذمہ دار ہوں گے۔ ان کی باہم لڑائیاں ریڈلائنزکراس کرتی رہیں تو پھر کسی جماعت اور خود جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ لوگ تنگ آجائیں گے اور پھر اسی طرف دیکھیں گے جن کے باعث پاکستان جمہوریت کا قبرستان بنتا رہا۔ 17جولائی کے ضمنی انتخابات فیصلہ کن ہوں گے کہ سیاسی استحکام آتا ہے یا عدم استحکام۔
اگر تو سیاسی استحکام آیا تو پھر معیشت کو بحال کرنے کی کوشش کسی حد تک بار آور ہوسکتی ہے۔ ہمارے حکمراں اور سیاستدان یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی بنیاد انتہائی نحیف ہے اور اسی پر ریاست و سلامتی کے بوجھ حد سے زیادہ ہیں۔ یوں کہئے کہ پاکستان معاشی و ریاستی اعتبار سے ناپائیدار ہے۔ اور پائیداری کے ہمارے آزمودہ اسٹریٹجک نسخے بار بار ناکام ہوچکے ہیں۔ سیاستدانوں کی ناکامی کہیں پاکستان کوبدقسمتی سے ناکام ریاست میں نہ بدل دے۔
لہٰذا، میں اتحادی حکومت، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کو انتباہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ اس ملک کے دیر پا اور پائیدار جمہوری و معاشی مستقبل کے لئے تین بنیادی نکتوں پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے جسے رولز آف گیم بھی کہا جاتا ہے۔ (1) اقتدار کے تمام ستونوں، سول ملٹری تعلقات، وفاق اور صوبوں میں آئین کی مکمل عملداری اور آئینی و جمہوری تسلسل۔ (2) معیشت کے بنیادی تقاضوں پہ اتفاق رائے، شراکتی اور پائیدار ترقی، خواص کے قبضے کا خاتمہ اور غریبی و آبادی پہ موثر کنٹرول۔ (3) پرامن اور علاقائی تعاون پہ مبنی سلامتی و خارجہ پالیسیاں۔ یہ سب ممکن ہے بشرطیکہ تینوں فریق معروضی تقاضوں کے سامنے سر جھکانے کے لئے تیار ہوں او راپنے اپنے مفاد کی خاطر وطن عزیز کو داؤپر لگانے سے اجتناب کریں۔ آئندہ کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہئے اس کا جائزہ اگلے کالم میں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔