بلاگ
Time 19 جولائی ، 2022

بھٹو روز روز پیدا نہیں ہوتے

الیکشن کمیشن، اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت اور جمہوری روایات پر یقین رکھنے والے اداروں کی جانب سے غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے نتجے میں پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب فتح کر لیا۔۔اور عدلیہ، الیکشن کمیشن، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایسے تمام ادارے جو عمران خان کے اقتدار کے راستے میں رکاوٹ بن سکتے تھے، فی الحال گالیوں، توہین، تمسخر اور الزامات سے بچ گئے۔

اور بنیادی بات یہ کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی جانب سے ’’نیوٹرل‘‘ ہونے کو انسان کی نہیں بلکہ جانور کی صفت قرار دے کر اور یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کہ ‘‘نیوٹرل‘‘ کے بغیر عمران خان کا اقتدار حاصل کرنا ممکن نہیں، نیوٹرلز کو ’’انسانوں‘‘ والی صفت اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی کوششیں کیں۔۔لیکن انہوں نے عمران خان کی خواہش پر ’’انسان‘‘ بننے سے انکار کر دیالیکن عمران خان کی جانب سے تمسخر اڑانے اور ادارے کے خلاف انتہائی توہین آمیز رویے کا سامنا کرنے کے باوجود بحیثیت ادارہ اپنی غیر جانبداری ثابت کردی۔۔ورنہ اس بار ہارنے کی صورت میں اس ملک کو تاراج کرنے کے لئے پھیلایا جانے والا انتشار پوری تاریخ کو سیاہ کر جاتا۔

خبر گیر اداروں کی یہ بھی اطلاع تھی کہ اقتدار کے حصول کے لئے پھیلائی جانے والی تباہی کے منصوبے صرف سول نافرمانی کی تحریک کے دوران سیاسی تصادم، مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں پر حملے، بد امنی، لاقانونیت، جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری عمارتوں پر حملوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے کے منصوبے بھی شامل تھے۔۔

اس کی با ضابطہ منصوبہ بندی ہو چکی تھی اور ڈیرہ اسماعیل سے تحریک انصاف کے راہنما علی امین گنڈاپور نے اس سلسلے میں انتظامات سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کی اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی کال پر اسلام آباد کی جانب لونگ مارچ سے قبل خیبر پختون خوا سے کم و پیش چار سو جنگجو جتھہ بنی گالہ میں اتار دیا۔۔جس کی تصدیق اسی مسلح جتھے میں شامل ایک جنگجو مثال خان نے کی تھی جسے بنی گالا کے ایک مقامی نوجوان کو بنی گالہ ہاؤس کی سڑک سے گزرتے ہوئے گولیاں مار کر زخمی کرنے پر بنی گالہ پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔۔ مثال خان نے دوران انکوائری پولیس کو بتایا تھا کہ اس کا تعلق کرک سے ہے اور اس کے ساتھ لگ بھگ دو سو مسلح افراد کیمپ میں موجود ہیں جو علی امین گنڈاپور کے حکم پر یہاں پہنچائے گئے ہیں۔

یہ کوئی انشا پردازی نہیں اور نہ من گھرت یا خودساختہ سوچ ہے۔۔بلکہ تباہی اور انتقام کے اعلانات سابق وزیر اعظم عمران نے خود کئے ہیں۔۔کوئی جلسہ جمہوری انداز میں مثبت سوچ کے ساتھ نوجوان نسل کی تربیت کی بنیاد پر ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ اپنے اقتدار کے لئے کٹ مرنے کی ترغیب کو اہمیت دی۔

15 جولائی کو فیصل آباد میں انتخابی جلسہ سے خطاب کے دوران سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنے کے مشاہدہ یا مؤقف پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر غداری کا مقدمہ بنائیں پھر میں وہ راز (باتیں) افشاں کروں گا جن سے قوم ابھی تک آگاہ نہیں ہے۔۔اس ملک میں سری لنکا سے زیادہ برا حال ہو گا۔۔وہاں عوام نے وزیراعظم ہاؤس جلا دیا۔۔ان کا حشر سری لنکا سے زیادہ عبرتناک ہو گا۔۔سری لنکا کا وزیراعظم پناہ مانگ رہا تھا۔۔اور صدر ملک چھوڑ کر بھاگ کیا تھا۔۔وہاں تباہی مچانے والے 2 کروڑ تھے اور یہاں 22 کروڑ ہیں۔۔یہاں ان کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔۔

ذوالفقار علی بھٹو کو ماننے والے اگر عمران خان کے پیروکاروں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھے۔۔بھٹو نے نوجوان نسل کو گمراہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے اقتدار کے لئے استعمال کیا۔۔ نوجوانوں، مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، محنت کشوں یہاں تک کہ ہر میدان اور شعبے کے کارکن کو ملک و قوم کے لئے کام کرنے کی ترغیب دی۔۔ہجوم کو قوم بنایا۔۔قوم کو شعور دیا اور پھانسی چڑھ گیا اور تاریخ میں امر ہوگیا۔۔ اور۔۔ کم و پیش پچاس برس بعد قدرت نے عمران خان کو بھی تاریخ میں امر ہو جانے کا موقع دیا۔۔لیکن عمران خان نے صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے جھوٹ اور الزام کی سیاست سے قوم کو گمراہ اور تاریخ میں امر ہو جانے کا موقع گنوا دیا۔۔اور یہ عقیدہ مزید مضبوط ہوگیا۔۔ کہ ذوالفقار علی بھٹو بار بار پیدا نہیں ہوتے۔

گمان ہے کہ اگر عمران خان ملک و قوم کے لئے کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں اپنے لوگوں یا پارٹی پر انحصار کرنا ہوگا۔۔ لیکن اس کے برعکس وہ شیخ رشید اور پرویز الہٰی جیسے آزمودہ لوگوں پر انحصار کرتے ہیں ۔۔ جو انہیں استعمال کرکے ان کی سیاسی مقبولیت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

عمران خان اپنے کروڑوں پیروکاروں کے باوجود اس وقت تک سنجیدہ سیاستدان نہیں بن سکتے جب تک وہ شیخ رشید اور پرویز الہی جیسے تانکہ سواروں سے دور نہیں ہوں گے اور اپنی سیاسی اور عوامی قوت پر بھروسہ نہیں کریں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔