20 جولائی ، 2022
17جولائی کو پنجاب میں ایسا کیا ہوا کہ ’بلے سے شیر‘ بھی زیر ہو گیا اور ایک بال سے کئی وکٹیں بھی گر گئیں۔ وہ کسی نے کہا تھا نا ،الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا ۔یہ صرف پنجاب اسمبلی کی 20سیٹوں پر الیکشن نہیں تھا ،یہ دراصل ’ریفرنڈم‘ تھا۔
عدم اعتماد کی تحریک کیخلاف جس کا شاید اب خمیازہ سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن) اور شریفوں کو بھگتنا پڑے گا۔طاقت کا سرچشمہ بہرحال عوام ہی ہوتے ہیں اور میں نے ہمیشہ ان کے سیاسی شعور کو مانا ہے ’تخت پنجاب‘ کے بعد بہت سی بڑی سیاسی تبدیلیاں ہونے جارہی ہیں مگر ایک بڑا مقابلہ کراچی میں ہونے جارہا ہے۔دیکھتے ہیں24جولائی کو کراچی کی کنجی، کس کے ہاتھ آتی ہے۔
پنجاب کا الیکشن کئی لحاظ سے2018کے عام انتخابات سے بڑا الیکشن ثابت ہوا۔ اس وقت الیکشن پر سوالات بھی تھے اور تمام تر مشکلات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک بھی برقرار تھا۔ اب عمران خان کو ایک واضح نفسیاتی برتری حاصل ہو گئی ہے۔
آئندہ ہونے والے عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کو بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ اس بار بیشتر لوگوں نےبرسوں بعد اپنا ووٹ برادری، ذات پات، کے بجائے پارٹی کے نشان کو دیا۔ مسلم لیگ کیلئے یہ سب سے بڑی شکست اس لئے بھی ہے کہ خود ان کی جماعت نے ان امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جنہیں نااہل قرار دیا گیا تھا اور جو 2018میں آزادامیدوار کے طور پر جیت کر آئے تھے مگر اب وہ ان کی حمایت سے بھی نا جیت سکے کیونکہ پارٹی کے لوگوں نے یا تو گھر بیٹھنا مناسب سمجھایا PTIکو ووٹ دے دیا۔
کہا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک غلط سیاسی فیصلہ ہے۔ انہیں عمران کا ایک سال برداشت نہیں تھا اب شاید پانچ سال برداشت کرنا پڑے۔ ویسے تو سیاست پلٹتے دیر نہیں لگتی مگر ہمارے’’سیاسی بزرگوں‘ ‘نے اپنا تو نقصان کیا ہی ہے ، آنے والی نسلوں کیلئے بھی مشکل کھڑی کر دی۔ اب یہ X,Yکا زمانہ نہیں ۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو نےایک عام آدمی کو سیاسی شعور دیا، بولنا سکھا دیا تو عمران خان نے کچھ اورکیا ہو یا نا کیا ہو ان کو لڑنا اور ’بیلٹ باکس ‘ کے ذریعے تبدیلی کا راستہ ضروردکھا دیاہے۔
اگرہماری سیاسی جماعتیں2013اور پھر2018کے الیکشن کا تجزیہ صحیح معنوں میں کرتیں تو انہیں شاید آج اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ خیبر پختونخوا میں 2013میں جب پہلی پار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو واضح تھا کہ اس کی فتح کے پیچھے افغانستان میں امریکی اتحادیوں کی مداخلت کے نتیجے میں جنگ میں پاکستان کی شرکت پر اس کی پوزیشن تھی۔ اس کو اس وقت ویسی ہی کامیابی ملی جیسی2002میں متحدہ مجلس عمل کو ملی تھی۔
دوسری بڑی وجہ عوام ،سیاسی قائدین اور کارکنوں پر تحریک طالبان پاکستان کے مسلسل حملے تھے۔ جس میں ان کے کئی رہنما اور کارکن شہید ہوئے۔ اس الیکشن میں عمران کو پنجاب اور کراچی میں بھی بڑا ووٹ پڑا مگر اتنا نہیں کہ حکومت بنا سکیں۔ اس وقت نواز شریف کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے چار حلقے، کھولنے کی بات سے انکار کیا اور 124دن کے دھرنے کا جواز پیدا کیا۔
’نیوٹرلز‘ کی اپنی سیاست تھی اور انہوں نے یقینی طور پر عمران کی حمایت کی ویسے ہی جیسے90کی دہائی میں شریفوں کی کی تھی۔اگر2013میں عمران نے KPمیں ANPاور JUI(F)کو شکست دی تو 2018میں پنجاب میں بڑی فتح ملے گی مگر مسلم لیگ (ن) پھر بھی سب سے بڑی جماعت رہی۔ اب عمران کے ساڑھے تین سال میں 17جولائی سے پہلے سب سے زیادہ ضمنی انتخابات مسلم لیگ(ن) نے جیتے تھے۔ اور عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے فضا انہی کے حق میں تھی ۔
2018میںKPمیں تحریک انصاف کی دو تہائی اکثریت ان کی ریکارڈ کامیابی کا واضح ثبوت تھا۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر خود پی ٹی آئی میں تحفظات تھے۔ ایسے میں کوئی جواز نہیں بنتا تھا، عدم اعتماد کی تحریک، اور وہ بھی صرف اس خوف سے کہ وہ ایک سال میں مخالفین کو فارغ کر دے گا یا اپنی پسند کا آرمی چیف لے آئے گا۔ اب تو یہ سارے کام نہ کرنے کی پوزیشن میں ہوکر بھی اس نے مخالفین کو تو عوامی تائید سے فارغ کر دیا۔
اس پورے حکومتی اتحاد میں اگر کوئی پارٹی ابھی تک ’سیف‘ہے تو وہ پی پی پی ہے، جس کے مسلم لیگ (ق) سے بھی بہتر تعلقات ہیں اور مسلم لیگ (ن) سے بھی۔اس کی سندھ حکومت بھی محفوظ ہے بلکہ بلدیاتی الیکشن میں دیہی سندھ کے ساتھ ساتھ اسے شہری سندھ میں بھی بلدیاتی الیکشن میں اب تک سکھر، نواب شاہ، میرپور خاص میں کامیابی تقریباً مل چکی ہے اور 24جولائی کو بدین، حیدر آباد اور کراچی میں بھی وہ بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہے۔
پی ٹی آئی نے اب تک چونکہ اندرون سندھ سیاست کی ہی نہیں اور نہ ہی کسی دوسری جماعت نے ماسوائے جمعیت العلمائے اسلام تو پی پی پی کو اب تک بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہوا۔
کراچی میں بڑا معرکہ ہونے جا رہا ہے24جولائی کو اور پھرNA-254میں ضمنی الیکشن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین مرحوم کی سیٹ پر، ان دونوں انتخابات میں تحریک انصاف بھرپور انداز میں موجود ہے۔ پنجاب کے نتائج کا نفسیاتی فائدہ بھی اسے حاصل ہو سکتا ہے مگر بلدیاتی الیکشن میں سخت مقابلہ ہے، تمام 26 ٹاؤنز میں پی ٹی آئی کے علاوہ پی پی پی، ایم کیو ایم (پاکستان) جماعت اسلامی، تحریک لبیک پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی جو کہ ،ANP،JUIاور مسلم لیگ (ن) بھی ہے مگر شاید اصل مقابلہ پہلی چار جماعتوں میں ہو۔ 2015میں ایم کیو ایم کے میئرتھے جناب وسیم اختر مگر اس بار جماعت کے اندر کے معاملات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ کراچی کا تاج، پہننا مشکل لگ رہا ہے۔جماعت اسلامی نے ان برسوں میں خاصا کام کیا ہے۔ تنظیم اور پبلسٹی میں ان کا ثانی نہیں۔ ان کے ناظم حافظ نعیم بہت محنتی شخص ہیں، مگر ہمیشہ کی طرح جماعت کا مسئلہ عوامی تائید رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔
پی پی پی کو یقین ہے کہ وہ 8یا9ٹاؤن جیت جائے گی اگر وہ میئر کی دوڑ میں ہوئی تو پرانے کارکن نجمی عالم ان کے امیدوار ہو سکتے ہیںPTIکیلئے یہ الیکشن جیتنا کئی لحاظ سے اہم ہے۔ ان کے2018میں کراچی میںMNA,14اور MPA,25 ہیںاس لحاظ سے انہیں بڑی کامیابی حاصل ہونی چاہئے مگر پارٹی کےاندر کے معاملات خاصے خراب ہیں۔ بہرحال عمران خان کراچی آکر کیسی مہم چلاتے ہیں،اس سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
تحریک لبیک ایک سرپرائز پیکیج ہو سکتا ہے مگر میئر یا پارٹی کی دوڑ میں ذرا مشکل لگتا ہے۔امکان اسی بات کا ہے کہ میئر اور ڈپٹی میئر کسی دو جماعتوں میں اتحاد سے ہی آئے گا۔ یہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کا بھی ہو سکتا ہے اور جماعت اور پی پی پی کا بھی ۔ سیاست میں سب چلتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔