بلاگ
Time 28 جولائی ، 2022

بارشی تباہی۔ انجینئرنگ یونیورسٹیاں آگے آئیں

دو مہینوں میں تین سو سے زیادہ قیمتی جانیں بارشوں کی نذر ہوچکی ہیں۔

پنجاب کا سیاسی بحران، ڈالر کی اونچی اڑان، آئین قانون ان ماؤں کیلئےبے معنی ہوچکے ہیں جن کے لخت جگر پانی کے ریلوں میں بہہ گئے۔ جن کے بڑھاپے کے سہارے کرنٹ لگنے سے چل بسے۔ جن کی آنکھوں کی ٹھنڈکیں دیواریں ،چھتیں گرنے سے رخصت ہوگئیں۔ 

ہم اکیسویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جب برسوں کی تحقیق۔ منصوبہ بندی کے بعد انسانی زندگی کو بے حد محفوظ کرلیا گیا ہے۔ جب پارلیمانی نظاموں، صدارتی حکومتوں، یک جماعتی سرکاروں میں انسانی جان و مال کیلئے مکانوں بلڈنگوں کو مضبوط بنانے کیلئے نظام وضع کرلئے گئے ہیں۔

ہر مرحلے پر قانون کی پاسداری کی جاتی ہے۔ شہر، قصبوں اور دیہات میں ماسٹر پلان بنائے جاتے ہیں۔ جہاں کم از کم 50سال تک کی آبادی میں اضافے، پانی کی ضروریات، اناج کی مانگ، تعلیم،صحت سب حوالوں سے ایک جامع لائحہ عمل تشکیل دیا جاتا ہے۔ یہاں معاشرے اور ریاست کے درمیان عمرانی معاہدے۔ آئین، دستور سب انسانی جان و مال کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیے جاتے ہیں۔

مون سون اب کے زیادہ خونی ہوگیا ہے۔ جون سے شروع ہونے والا موسلا دھار بارشوں کا خوفناک سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان،گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کہیں بھی صورت حال اچھی حکمرانی، بہتر منصوبہ بندی کی گواہی نہیں دے رہی ۔

 ہر ٹوٹتی سڑک،ہر گرتا پل، ہر دریا بنتی شاہراہ،پانی میں ڈوبتا ہر گھر، ابلتے گٹروں والی ہر گلی ۔ پچھلے تیس چالیس سال سے حکمرانی کرتے خاندانوں، قبیلوں، وڈیروں، جنرلوں، انتخابیوں ،جمہوریوں کو کٹہرے میں کھڑی کررہی ہے۔

یہ گھڑی محشر ہے تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

چالیس سال سے فوجی حکمرانی بھی ہے ۔ درمیان میں جو سیاسی حکومتیں ہیں۔ اس میں بھی منتخب حکمرانوں کو اقتدار پورا منتقل نہیں ہوتا ۔ انہیں اقتدار کا کچھ حصّہ ملتا ہے۔ مقتدر طاقتیں غیر منتخب ادارے ہی کہلاتے ہیں۔ کوئی بحران ہو جیسے آج کل عمودی افقی سیاسی اخلاقی اقصادی بحران درپیش ہے۔ اس میں حتمی فیصلے کیلئے بے چاری خلقت مقتدر طاقتوں کی طرف ہی دیکھتی ہے۔ خود اپوزیشن اور حکمراں بھی بالواسطہ اور بلا واسطہ مقتدردروازوں پر ہی دستک دے رہے ہوتے ہیں۔ کتنی تشویش کی بات ہے کہ سیاسی اور فوجی دونوں حکمراں ملک کو ایک محفوظ سسٹم اور بہتر حکمرانی دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

وہ جن کو ہم چارفٹے بنگالی کہتے تھے۔ جنہیں حقارت سے دیکھتے تھے۔ وہ الگ ہوکر نصف صدی میں اچھی حکمرانی کرکے ہم سے آگے نکل گئے ۔ ان کے پاس زمین ہم سے بہت کم تھی۔ دریا، نہریں زیادہ تھیں۔ سمندر زیادہ تھا۔ سیلاب ہی نہیں سائیکلون بھی تباہی مچاتے تھے۔ ہم سے زیادہ غربت تھی۔ لیکن انہوں نے آبادی پر کنٹرول کیا۔ کرپشن کا احتساب کیا۔ بد عنوان رہنماؤں کو سابق جنرلوں، جسٹسوں کو سخت سزائیں دیں۔ ان کی آبادی اب 16کروڑ ہے۔ ہماری 22کروڑ۔ وہ جب ہم سے الگ ہوئے۔ ان کی آبادی 1971میں ساڑھے چھ کروڑ تھی۔ مغربی پاکستان کی ساڑھے پانچ کروڑ۔ اب دیکھیں ہم آبادی میں بہت بڑھ گئے۔ سہولتوں میں پیچھے رہ گئے۔ 

ایک اتفاق دیکھئے کہ ہماری آبادی میں جو چھ کروڑ کا فرق ہے۔ اتنے ہی پاکستانی یعنی چھ کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں ۔ یعنی ہم نے آبادی تو بڑھائی ان کے لئے مطلوبہ سہولتوں کا اہتمام نہیں کیا۔ آبادی جن حکمرانوں کے دَور میں بھی بڑھی اب بھی بڑھ رہی ہے۔ اس کے ذمہ دار یہی حاکم ہیں۔ہم ویسے پانی کے لئےترستے ہیں۔ بلوچستان میں خاص طور پر پینے کے پانی اور زراعت کے لئے پانی کی بہت کمی ہے۔ وہاں آسمان سے برستا لاکھوں گیلن میٹھا پانی کوئی ڈیم، تالاب، ذخیرہ آب نہ ہونے کی وجہ سے ضائع بھی ہورہا ہے اور جان و مال کے لئے تباہ کن بھی بن رہا ہے۔ اس کے ذمہ دار وہی حکمراں ہیں جو گزشتہ چالیس سال سے گورنر، وزیر اعلیٰ بنتے آرہے ہیں یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنتے رہے ہیں۔

 انتہائی دُکھ کی بات ہے کہ سب سے زیادہ جانیں بلوچستان میں گئی ہیں جہاں پہلے سے ہی سنگین مسائل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میں 120کے قریب ہم وطن ہم سے بچھڑے ہیں۔ وہ بھی کسی ماں کے لاڈلے تھے۔ ان کے لئےبھی کسی باپ نے برسوں تمنّا کی ہوگی۔ ان کے بھی پیارے پیارے بچے ہوں گے۔ ان کے بھی کچھ خواب ہوں گے آرزوئیں ہوں گی۔ جو ان کے ساتھ ہی طوفانی ریلوں میں بہہ گئیں۔ سندھ میں 70کے قریب قیمتی جانیں بارشوں نے اپنے نام کرلیں۔ پنجاب میں 60ہم وطن جان سے گئے۔ خیبر پختونخوا میں61 زندگیاں مون سون کی نذر ہوئی ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر میں ہلاکتیں زیادہ نہیں ہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کی تعداد بہت ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی ہلاکتیں کم ہیں۔ مگر متاثرین زیادہ ہیں۔

سوال حکمرانی کا ہے اور حکمرانوں کی ترجیحات کا ۔ انسانی زندگی کا تحفظ ترجیح کیوں نہیں ہے۔ مون سون کے مہینوں کا بھی پہلے سے علم ہوتا ہے۔ محکمۂ موسمیات بھی پہلے سے خبردار کردیتا ہے۔ لیکن شہروں اور قصبوں میں آبادی بے ہنگم انداز میں بڑھی ہے۔ پہلے سے بسے شہروں پر ہی آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ پینے کے پانی اور نکاسیٔ آب کے انتظامات آبادی میں اضافے کے تناسب سے نہیں بڑھے ہیں۔ ملک پر ہزاروں ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ ہوگیا ہے۔یہ قرضے جن منصوبوں کے لئے لئے گئے وہ کہاں ہیں۔ سیاسی حکمرانوں نے بلدیاتی اداروں کو ناکارہ کردیا ہے۔ بارشوں کے مقابلے میں انتظامات کا اختیار بلدیاتی اداروں کو ہوتا ہے۔ ان کے انتخاب نہیں ہوتے۔ اختیارات چھین لئےجاتے ہیں۔ دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کی منتقلی زوروں پر ہے۔

بارش کا پانی ایک قدرتی نعمت ہے۔ اسے ذخیرہ کرنے کے لئےکالا باغ ڈیم اربوں روپے خرچ کرکے نہیں بن سکا۔ چھوٹے ڈیم بھی نہیں بنے۔ بارش کے میٹھے پانی کے ذخیرے کے لئےہم برسوں سے توجہ دلارہے ہیں۔ 2010کے سیلاب کے وقت بہت کچھ لکھا گیا۔ ماحولیات کی ماہر شبینہ فراز بڑے شہروں کے بڑے پارکوں میں جھیلیں بنانے کی تجویز دے رہی ہیں۔ اور بڑی کمپنیوں کو دعوت دے رہی ہیں کہ وہ ایک ایک جھیل گود لے لیں۔ 

کراچی کے ایک درد مند امان اللہ نے خالی کنوؤں کو بارش کے پانی سے پائپ کے ذریعے جوڑ کر 30لاکھ گیلن پانی جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ حکمرانوں کی تو آئندہ نسلیں بھی اپنے قلعوں میں محفوظ رہیں گی۔ عوام کو اپنی اولادوں کے تحفظ کی فکر کرنی چاہئےانجینئرنگ کالج، یونیورسٹیاں، ا نجینئر ز سامنے آئیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں پانی کے بہائو کا انتظام کریں جس سے پانی ضائع بھی نہ ہو اور لوگوں کی جان کو خطرہ بھی لاحق نہ ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔