دنیا
Time 29 جولائی ، 2022

بڑی دواساز کمپنیاں کینسر ادویات کے ٹرائلز ڈیٹا تک رسائی نہیں دیتیں: ماہرین

بڑی دواساز کمپنیاں کینسر ادویات کے ٹرائلز ڈیٹا تک رسائی نہیں دیتیں: ماہرین

میڈیکل سائنس ریسرچ جرنل ’JAMA Oncology‘ میں شایع ہونے والی آسٹریلوی سائنسدانوں کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینسر کے علاج کے حوالے سے سائنسدانوں کو درکار اینٹی کینسر ادویات بنانے والی بڑی دوا سازکمپنیوں کے ٹرائل ڈیٹا تک رسائی ناممکن ہے۔

آسٹریلوی ماہرین کا ماننا ہے کہ دواساز کمپنیوں کے اینٹی کینسر ادویات کے کلینکل ٹرائلز معاملے میں عدم شفافیت سے ہونے والے نقصان کا ازالہ صحت کے نقصانات کی صورت میں ادا کرنا پڑ سکتا ہے اور کینسر ادویات بنانے والی بڑی کمپنیوں کے کلینکل ٹرائلز کے ڈیٹا شیئرنگ میں یہ عدم شفافیت آسٹریلیا کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔

آسٹریلیا کی فلنڈر یونیورسٹی جانب سے کی گئی تحقیق میں گذشتہ 10 سال کے دوران امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) سے منظور شدہ 304 فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی 115 اینٹی کینسر ادویات کے کلینکل ٹرائلز ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیق کے دوران 304 میں 136 (45 فیصد) کمپنیوں نے اپنے مریضوں کی شناخت کے بغیر ڈیٹا شیئر کیا، صرف 64 (21 فیصد) کمپنیوں کا ڈیٹا عام طور پر دستیاب تھا جبکہ دیگر کمپنیوں کو ڈیٹا کے لیے درخواست دینے کی ضرورت تھی جس کے بعد کمپنی سے اس درخواست کی منظوری کو مہینوں بھی لگ سکتے تھے۔

ماہرین کے مطابق ریسرچ کے لیے 304 کمپنیوں کی 115 اینٹی کینسرادویات کا 90 فیصد کلینکل ٹرائلز ڈیٹا دستیاب ہی نہیں ہو سکا، جبکہ جن بڑی کمپنیوں کا کلینکل ٹرائلز ڈیٹا تحقیق کے لیے دستیاب نہ ہو سکا تھا انہوں نے صرف 2021 کے دوران ان ہی ادویات سے 25 ارب ڈالر سے زائد منافعہ کمایا تھا۔

آسٹریلیا کی فلنڈر یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی تحقیق کے سربراہ نتانش مودی نے کہا کہ اینٹی کینسر ادویات کے کلینکل ٹرائلز میں حصہ لینے والے زیادہ تر افراد نسلی طور پر گورے (caucasian) اور مرد ہیں مگر  مختلف نسل اور جنس پر ادویات مختلف طریقے سے اثر کر سکتی ہیں اور حاملہ خواتین پر بھی اس کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مختلف لوگوں پر ان ادویات کے اثرات کو پرکھنے کے لیے دوائیوں کے کلینکل ٹرائلز میں مختلف نسل، جنس، حالت کے لوگوں کو شامل کرنا چاہئے اور سیمپل سائز بڑھانا چاہیے تاکہ کوئی ٹھوس نتائج سامنے آ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے تحقیقی مطالعوں کو سسٹمیٹک ری ویوز یا میٹا اینالائسز کہا جاتا ہے، اگر بڑی کمپنیوں کی اینٹی کینسر ادویات کے کلینکل ٹرائلز کا ڈیٹا ہمیں دستیاب نہیں ہوگا تو ہم کافی سوالوں کے جواب نہیں دے سکیں گے کہ یہ ادویات حاملہ عورتوں،  ایشین نسل کے لوگوں، یا بڑی عمر کے مریضوں کے لیے محفوظ ہیں کہ نہیں یا ان پر پر ان ادویات کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ 

انہوں نے کہا اینٹی کینسر ادویات کی فروخت کے اعتبار سے بڑی کمپنیاں ٹرانسپیرنسی کے اعتبار سے بلکل نیچے کھڑی ہیں۔

مزید خبریں :