بلاگ
Time 31 جولائی ، 2022

جناب عمران خان سے گزارشات

آپ سے تخاطب کا آغاز اس دُعا کے ساتھ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقبولیت کے ان دنوں میں تکبر اور غرور سے محفوظ رکھے۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد آپ یقیناً پاکستان کے مقبول ترین سیاسی لیڈر بن گئے ہیں۔ آپ کو سب سے بڑے صوبے کی حکومت بھی مل گئی ہے۔ جلسے جلوس ثابت کررہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اب چاروں صوبوں اور دونوں اکائیوں میں موجود ہے۔ 

پاکستان کی سب سے اہم ضرورت ایسی سیاسی پارٹی تھی جس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوں اور اس کی جڑیں بھی سب مقامات پر ہوں۔ملک کی 23کروڑ آبادی میں سے قریباً 16کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کی جان مال کی حفاظت اب آپ کے ذمے ہے۔ صرف بلوچستان اور سندھ میں پی ٹی آئی کی باقاعدہ حکومت نہیں ہے۔ لیکن وہاں کی فکر بھی آپ کو کرنی چاہئے۔

گزشتہ تین چار ماہ میں بہت اہم تاریخیں بہت نازک مرحلے آئے۔ عوام اعصابی تناؤ میں رہے ہیں لیکن 17جولائی پاکستان کی سیاسی عوامی تاریخ میں سب سے اہم دن رہے گا۔ جب سب سے بڑے صوبے کے عوام اپنے رائے دہی کے حق کے لئے گھروں سے نکلے اور پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچے۔ یہ ان کے قومی سیاسی شعورکا عملی اظہار تھا۔ میری نسل نے پاکستان بنتے، پھر ٹوٹتے، پھربگڑتے دیکھا۔ ہمارے لئے 17 جولائی ایک چمکتا دمکتا دن تھا۔ ہمارے ذہنوں سے گرد جھڑ گئی۔ مایوسی یقین میں بدل گئی۔

آج اتوار ہے۔ میں اپنے قارئین سے برسوں سے کہتا آرہاہوں۔ ہفتے میں ایک دن اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کے لئے مخصوص رکھیں۔ دوپہر کے کھانے پر ساتھ بیٹھیں۔ ان کے سوالات سنیں۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ ہم غروب ہورہے ہیں۔ یہ طلوع۔ آپ کے جلسوں جلوسوں کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف مرد نہیں سارے اہل خانہ آتے ہیں۔ 

مستقبل بڑی تعداد میں آتا ہے۔ گھر گھر یہ بحث ہورہی ہے کہ عمران خان کے کس مؤقف نے پاکستانیوں کو ولولۂ تازہ دیا ہے۔ کیا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ تیرا میرا رشتہ کیا لا الہ الا اللہ نے۔ یا امریکہ کی غلامی نا منظورنے۔ یا ملک لوٹنے والوں کے بے رحم احتساب کے عزم نے یا قانون طاقت ور اور عام انسان کے لئے یکساں نے۔

پہلے آپ کا نعرہ تھا آئی آئی۔ پی ٹی آئی۔ اب اس میں دو تہائی پی ٹی آئی بھی شامل ہوگیا ہے۔آپ کو یقیناً احساس ہوگا کہ آپ جتنے مقبول ہورہے ہیں اتنی ہی آپ کی آزمائش بڑھ رہی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ملک ان دنوں اقتصادی طور پر بہت ہی خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ روپیہ ڈالر کے سامنے عجز کا شکار ہوگیا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر سمٹ رہے ہیں۔ مہنگائی اپنے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے ہر روز لاکھوں پاکستانی جارہے ہیں۔ اس کی ذمہ داری موجودہ حکمرانوں پر ڈالی جاسکتی ہے۔ مگر صرف وقتی طور پر۔ گزشتہ 40سال سے جس قسم کی حکمرانی ہورہی تھی۔ یہ اس کا منطقی تاریخی نتیجہ ہے۔

ان 3½سال میں آپ کوئی مثالی حکومت نہیں کرسکے ۔ اس کے اسباب آپ بہتر جانتے ہوں گے۔ اس وقت جب کے پی کے۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر۔ اور اب پنجاب آپ کے پاس ہیں۔ آپ کی طرف سے طوفانی بارشوں سے تباہی کے سلسلے میں ان حکومتوں کو کوئی ہدایات سامنے نہیں آرہی ہیں۔ کے پی کے میں آپ 2013سے مسند نشیں ہیں۔ وہاں بھی بارشوں سے تباہی دوسرے صوبوں کی طرح ہی ہورہی ہے۔

آپ نے اپنے مسلسل خطابات کے ذریعے جہاں عوام میں بیداری پھیلائی ہے۔ وہیں پاکستانیوں میں اصلاح احوال کے لئے آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوگئی ہیں۔ پاکستان میں قیادت کے عروج و زوال کے تناظر میں مجھ پر تو کپکپی طاری ہے کہ کیا آپ ان کی امیدیں پوری کرسکیں گے۔

 یا پھر وہی کہتے رہیں گے کہ چالیس سال سے پیدا ہوئے مسائل جلد حل نہیں ہوسکتے۔ الیکشن اسی سال ہوں یا اگلے سال اگست میں۔ قرائن آپ پر ہی یہ ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ بعض تجزیہ نگارکہتے ہیں کہ زیادہ وقت گزرا تو آپ کی مقبولیت کم ہوتی جائے گی۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ کیونکہ میں تصور کررہا ہوں کہ آپ کو زیادہ طویل انتخابی مہم میسر آئیگی۔ اپنے آپ کو زیادہ منظّم کرسکیں گے۔ زیادہ علاقوں میں جاسکیں گے۔

ہم اس وقت اپنے ڈائمنڈ جوبلی سال سے گزر رہے ہیں۔ یہ تاریخی موڑ ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت کیا چاہتی ہے۔ یہ سورج کی طرح واضح ہے۔ بنیادی نکتہ ہے۔ قانون کا سب کے لئے یکساں نفاذ۔ 75سال میں بتدریج جو وی آئی پی کلچر مستحکم ہوا ہے۔ اس نے قانون کے یکساں نفاذ کو نا ممکن بنادیا ہے۔آپ کے ارد گرد بھی وہی جاگیردار، سردار، سرمایہ دار ہیں جو اپنے اپنے علاقے میں طاقت ور ہیں۔ وہ بھی وی آئی پی کلچر کے امین ہیں۔ پارلیمانی نظام میں اگر پارٹی کی تنظیم مضبوط ہو۔ پارٹی کے عہدیداروں کو سرکاری عہدیداروں پر بالادستی ہو۔تو پارلیمانی نظام چلتا ہے۔ ہم برطانیہ کے وزیر اعظم کی پارٹی کی طرف سے برطرفی کا ذکر فخریہ کررہے ہیں۔ لیکن کیا پاکستان تحریک انصاف کی تنظیم اتنی مضبوط ہے اور کیا پارٹی کے اندر باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ کیا پارٹی میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنے انتخابیوں۔ سینیٹرز۔ ارکان اسمبلی کا احتساب کرسکے۔

ایک طرف یہ با اثر لوگ پارٹی کے پاؤں کی زنجیر بنیں گے۔ دوسری طرف معیشت، بازار حصص، سرمایہ کاری، پانی، بجلی، گیس، پیٹرولیم کے الجھے ہوئے معاملات، مقتدر اداروں کے مفادات، دو تہائی سے آپ قانون سازی تو بہتر کرسکیں گےلیکن اس دو تہائی کے ناز نخرے برداشت کرنا بھی بہت سے معاملات میں سمجھوتوں پر مجبور کرتا ہے۔ حکمرانی نوکر شاہی کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔ برسوں سے کوزہ گروں نے جو بیورو کریسی تخلیق کی ہے۔ وہ قانون کی نہیں۔ آقاؤں کی حکمرانی کا آلہ بننا جانتی ہے۔ قانون کے مطابق کام کرنے والے اعلیٰ افسر تو آپ کے وفاقی وزراء، وزرائے اعلیٰ کو بھی پسند نہیں آتے۔

عوام آپ سے پیار کرتے ہیں لیکن انکے اوقات بہت تلخ ہیں۔ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوچکا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ اسد عمر اور شوکت ترین دونوں بلند قامتوں کو تین چار ہفتے کے لئے ماہرین معیشت، زراعت، ٹیکنالوجی، پیٹرولیم، صحت کے ساتھ بند کمرے میں بٹھا دیں۔ پاکستان کے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے آئندہ دس پندرہ سال کا مبسوط اقتصادی لائحہ عمل تیار کریں۔3½ سال میں آپ حکمرانی میں مشکلات اور رکاوٹوں کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اب جب بھی آپ کو اسلام آباد دوبارہ ملے۔ تو آپ کے پاس لائحہ عمل موجود ہو۔ اس پر عملدرآمد شروع کردیں۔ قوم کو آگے لے کر بڑھیں۔ ماضی کا حوالہ نہ دیں۔ سسٹم بنائیں اور اس کو اپنا کام کرنے دیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔