Time 03 اگست ، 2022
بلاگ

گجرات کے چوہدری اور ’’تخت لاہور‘‘

گجرات کے چوہدری پرویز الٰہی ان خوش قسمت سیاست دانوں میں شامل ہیں جو حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کے لیے قابلِ قبول تھے۔ شاید خود ان کیلئے سب سے تکلیف دہ لمحہ وہ ہوگا جب ان کے کارکنوں نے چوہدری شجاعت حسین کے پوسٹر پھاڑے ہوں گے، نعرے لگائے ہوں گے۔

وقت وقت کی بات ہے ’گجرات کے چوہدریوں‘ کو 80 کی دہائی میں جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق نے شریفوں کا ساتھ دینے کا کہا کیونکہ اس وقت مقصد پی پی پی کو پنجاب سے ختم کرنا تھا۔ بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو وہ سیاست میں نومولود تھے۔ اس وقت حسین حقانی اور کچھ دوسرے صحافیوں اور دانشوروں کو ان کی سیاسی تربیت کے لیے رکھا گیا۔ مئی 1988 میں جنرل ضیاء اپنے ہی لگائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو سے ناراض ہوئے تو نہ صرف انہیں اقتدار سے فارغ کیا بلکہ اس مسلم لیگ سے بھی جو 1985 کے الیکشن کے بعد معرض وجود میں آئی تھی۔ پاکستان میں اگر کوئی سیاسی جماعت یا گروپ بنانا ہو تو اپنے نام سے پہلے بس مسلم لیگ لکھ لیں۔ اصل نام کا 75 برس میں یہی حشر ہوا ہے۔ لہٰذا جونیجو صاحب فارغ ہوئے تو میاں صاحب کی لاٹری نکل آئی۔

چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب میں شریفوں کی بے وفائی کا تو ذکر تفصیل سے کیا ہے مگر یہاں تو ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘ کا ذکر ہو رہا تھا۔ 1988 میں ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تو شریف اور چوہدری خاندان ساتھ ساتھ تھے۔ 1990 میں بےنظیر حکومت کا خاتمہ ہوا تو غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔ جتوئی صاحب نے ایک بار انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ ’’طے تو یہ ہوا تھا کہ وہ الیکشن کے بعد وزیراعظم بنیں گے، اسلم بیگ ریٹائرمنٹ کے بعد صدر اور نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب مگر بازی پلٹ دی گئی اور میاں صاحب وزیراعظم بن گئے۔‘‘

چوہدریوں کو یقین تھا کہ اب وزارت اعلیٰ انہیں ملے گی مگر وہ غلام حیدر وائیں کے نصیب میں آئی۔ 1997 میں جب دوسری بار میاں صاحب وزیر اعظم بنے تو یہ طے ہوچکا تھا کہ چوہدری شجاعت وزیر داخلہ اور پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب ہونگے۔ مگر شہباز شریف جو 1990 میں بھی وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے، ضد کر کےوزیراعلیٰ بن گئے۔ یہ ابتدا تھی ان دو خاندانوں کے جدا ہونے کی۔ بس وقت کا انتظار تھا، جس کیلئے 12اکتوبر 1999کیا آیا، شریفوں کے برے دن اور چوہدریوں کے اچھے دن شروع ہو گئے جو آج تک جاری ہیں بس چوہدری خاندان تقسیم ہو گیا ہے۔

سیاست کے اس میدان میں اس دوران عمران خان بھی آگئے تھے۔ اس شعبہ میں تو نوآموز تھے مگر اسکرین کے ہیرو تھے۔ 2000میں شریفوں نےپرویز مشرف سے 10سال کا معاہدہ کر کے سعودی عرب میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو مشرف نے 2002کے الیکشن میں بےنظیر بھٹو اور شریفوں کو باہر رکھنے کا انتظام کرلیا۔ عمران خان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور مشرف کو سیاست کا مسیحا سمجھ بیٹھے۔

تاہم جب الیکشن کا وقت آیا تو عمران کو صرف اپنی نشست ملی اور مشرف نے شفقت کا ہاتھ چوہدریوں کے سر پر رکھ دیا۔ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوگئے۔ پانچ سال ڈٹ کر حکومت کی اور کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب 2007 میں عدلیہ بچائو تحریک میں سپریم کورٹ نے جناب جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کیا تو مشرف نے استعفیٰ دینے اور نئے انتخابات کا فیصلہ کرلیا مگر چوہدریوں نے انہیں ایسے کرنے سے باز رکھا۔

بےنظیر کی شہادت کے بعد ان کے اس خط کا بڑا ذکر رہا جس میں دیگر افراد کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی اور بریگیڈئر اعجاز شاہ پر بھی شک کیا گیا تھا۔ 2008 میں الیکشن ہوئے تو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی مشترکہ حکومت بنی مگر ججز کی بحالی پر اختلاف ہونے لگا تو زرداری صاحب نے چوہدریوں کو اپنا ہمنوا بنالیا۔ پرویز الٰہی صاحب نے ایک بار مجھے بتایا کہ زرداری صاحب یہ پیغام لے کر آئے کہ ’’پرانی دشمنی ختم کریں تاکہ ہمارے بچے دوستیوں میں جوان ہوں۔‘‘ اس بار پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم بن گئے اب آئین میں اس کی گنجائش تھی یا نہیں۔

اتنے برسوں میں مسلم لیگ (ق) جوان ہو چکی تھی۔ عمران خان صاحب کیلئے وہ بڑا تکلیف دہ لمحہ تھا جب 2018کے ساتھ پنجاب میں حکومت بنانا پڑی، وہ کہتے ہیں ناں ’’ وقت کرتا ہے پرورش برسوں... حادثہ اک دم نہیں ہوتا،‘‘ ان ساڑھے تین برسوں میں دوسال ان کے درمیان گفتگو صرف اس وقت ہوتی جب عمران مشکل میں ہوتے۔

عدم اعتماد کی تحریک آئی تو زرداری صاحب اور چوہدری ایک پیچ پر تھے۔ زرداری ہائوس میں ’دعا‘ کی گئی، ’ماشاء اللہ‘ رب کی شان ہے۔ پرویز الٰہی صاحب وہاں سے روانہ ہوئے تو اچانک ایک ’نامعلوم نمبر سے کال آگئی‘ اور گاڑی کا رُخ چوہدری ہائوس کی بجائے بنی گالہ کی طرف کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن وہ گاڑی وہیں پارک ہے۔ میں نے کہا تھا ناں،وقت وقت کی بات ہے عمران صاحب کو جن کی شکل پسند نہیں تھی وہی مونس الٰہی آج آنکھ کا تارا ہیں اور کل کا چور ڈاکو وزیراعلیٰ ہے۔ رہ گئی بات باپ بیٹے کی تو شہباز شریف نہ خود کامیاب نظر آ رہے ہیں نہ حمزہ۔ اب شاید بات بڑے بھائی کے ہاتھ سے بھی نکلتی نظر آ رہی ہے۔ پنجاب بدل رہا ہے یا پھر سیاست کا اندازبدل رہا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔