09 اگست ، 2022
فارن فنڈنگ کے ضمن میں غیر ملکی ایجنسیوں، اداروں یا شخصیات سے حاصل ہونے والی غیر قانونی خطیر رقم ظاہر نہ کرنے یا ریکارڈ پر نہ لانے کا اقدام کس قدر مہنگا پڑے گا، قائد تحریک کو اس کی سنگینی کا یا تو اندازہ ہی نہیں تھا یا پھر انہیں اپنے 'لاڈلا ہونے پر اتنا گھمنڈ تھا کہ انہوں اس جانب توجہ دینا اپنی توہین تصور کیا البتہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہی ہو گا۔
اس خطرہ کے مقابلے کےلئے قائد تحریک نے "چور مچائے شور" کا فارمولہ اختیار کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو متنازعہ بنانے کی نیت سے انہیں جانبدار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف تحریک چلانے اور ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کر دیا۔۔لیکن الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا۔
ماضی کے حالات کے تحت لوگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ عدالتیں عمران خان کا مقدمہ لڑتی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اس کے جھوٹ کو تحفظ فراہم کرتی ہے لیکن اب سونامی عمران خان کے تعاقب میں ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) نے فارن فنڈنگ کیس کی ملک گیر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کے لئے ماہرین پر مشتمل پانچ رکنی سپروائزری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جبکہ تحقیقاتی عمل کی نگرانی ڈائریکٹر جنرل محسن حسن بٹ خود کریں گے۔ اب تک کی جانے والی تحقیقات کے مطابق عمران خان کے ان ذاتی ملازمین کے بیانات قلمبند کئے گئے ہیں۔ ان سب نے ان کے ناموں پر کھولے جانے والے بینک اکاؤنٹس کی تائید کی البتہ ان میں کی جانے والی ٹرانزیکشن کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی۔
باخبر حلقے یہ بات یقین سے کہتے ہیں کہ فارن فنڈنگ کے فیصلے کے تحت حکومت نے اس مقدمہ میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث پارٹی کے پندرہ راہنماؤں اور ملازمین کو حراست میں لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ جعلی اکاؤنٹس کے بارے علم رکھنے والوں کی عدالت میں بیانات اور گواہیاں مقدمے کی سچائی ثابت کرنے میں مددگار ہوں گی تاہم قائد تحریک عمران خان کی گرفتاری تحقیقات مکمل ہونے پر کی جائے گی۔ اس فیصلے پر عملدرآمد انحصار کہیں سے موصول ہونے والے "گرین سگنل" پر ہے۔
عمران خان کے سر پر لٹکنے والی ایک اور تلوار ان کے خلاف قائم ہونے والا توشہ خانہ کیس ہے جو انہیں تا حیات نااہل قرار دینے کے لئے کافی ہےکیونکہ سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف کو عمران خان کے توشہ خانہ کیس سے کہیں زیادہ کمزور مقدمہ میں تاحیات نااہلی کی سزا ہو چکی ہے اور ملک کی اعلی ترین عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا کی مسلمہ مثال موجود ہے جس کے تناظر میں سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کی تاحیات نااہلی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں جنگ گروپ کے نمائندہ قاسم عباسی نے اپنی خبر میں جن تین غیر قانونی اقدامات کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک یہ کہ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کئے گئے 14 کروڑ روپے مالیت کے نادر تحائف کی مالیت ڈیکلیئر نہیں کی اور ڈکلیئریشن میں یہ بات بھی ظاہر نہیں کی کہ دنیا کے مختلف ممالک کے دوروں کے دوران موصول ہونے والے بیشتر تحائف کسی معاوضہ کی ادائیگی کئے بغیر کیوں گھر لے گئے۔ جبکہ تیسرا یہ کہ کسی قانون اور ضابطہ کو خاطر میں لائے بغیر عمران خان نے توشہ خانہ سے انتہائی قیمتی تحائف غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر نکلوا لئے اور بھاری قیمتوں پر اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے کے بعد ان کی واجبی قیمت توشہ خانہ میں جمع کرا دی ۔۔
ہر آنے والا دن عمران خان کی پریشانیوں میں اضافے کی نئی اطلاع لے کر طلوع ہو رہا ہے۔ آگے کنواں پیچھے کھائی۔ اسی تناظر میں غیر جانبدار صحافی انصار عباسی نے ایک تجزیہ میں عمران خان کو اب "گھبرانے" کا مشورہ دیا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
وزارت داخلہ کے باخبر حلقوں کا دعوی ہے کہ عمران خان کے آئین اور قانون شکن جرائم کی تحقیقات کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گا۔ فارن فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے جرائم کی تحقیقات کے لئے ان ممالک کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا جہاں ان جرائم نے جنم لیا تھا۔
عمران خان کے خلاف یہ الزامات زیر تفتیش ہیں کہ سی پیک کا منصوبہ ختم کرنے کے معاہدے کے تحت تحریک انصاف نے بھاری فنڈز لئے جو پاکستان کے عدم استحکام اور تنزلی کا باعث بنا۔
یہ بات بھی عیاں ہےکہ عمران خان نے فنڈز اکٹھے کرنے کی مہم کے دوران امیتابھ بچن، ونود کھنہ، ریکھا، کبیر بیدی، سونو والیہ اور کئی دوسرے بھارتی اداکاراؤں اور گلوکاروں کے معاونت سے فنڈ ریزنگ شوز کراے تھے جس میں نصرت فتح علی نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ سوالات بھی جواب طلب ہیں کہ بھارتی لوگوں کے فنڈز پاکستان کیسے منتقل ہوئے۔
اس بات سب جانتے ہیں کہ قائد تحریک کا منشور جھوٹ، بد زبانی، الزام تراشی، بد نیتی اور نئی نسل کو گمراہ کرنے کے بنیادی مقصد پر کھڑا ہے۔ عمران خان نے ضیاء الحق کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے نوجوان نسل کو گمراہ کر دیا جن سے اب عمران خان کے 'وژن کے مطابق کوئی شخصیت اور عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، صحافت اور مسلح افواج سمیت کوئی ادارہ ان گمراہوں کے شر سے محفوظ نہیں۔
یکم اگست، 2022 کو لسبیلہ میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں پھنسے لوگوں کی مدد کے دوران گر کر تباہ ہونے والے ہیلی کاپٹر میں کور کمانڈر کوئٹہ جنرل سرفراز علی سمیت چھ فوجی افسر سیلاب میں پھنسے لوگوں کی زندگیاں بچاتے شہید ہو گئے لیکن تحریک انصاف کے قائد اور ان کے گمراہ ٹرولرز قوم کے ساتھ مل کر شہداء کے اس کارنامے کو سراہنے کی بجائے ان کا تمسخر اڑانے کے علاوہ فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کرنا فوج کی غیرجانبدارانہ پالیسی کے خلاف تحریک چلانے کے اعلان کے مترادف ہے۔
یہ پرپیگنڈہ مہم اس گمراہی اور بے لگامی کا ثبوت ہے جس کی بنیاد پر عمران خان عوام سے اقتدار چھیننا چاہتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔ پی ٹی آئی کے تصدق شدہ منیب کیانی نامی ٹرولر نے اعتراف کیا کہ اس نے تحریک انصاف کے ٹرولرز، عمران ریاض خان کے علاوہ عظمی خان، سبینہ کیانی اور سولجر سپیک کے پیجز سے فوج مخالف مواد حاصل کیا اور اپنا بیانیہ بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔۔اس حرکت کی کتنی جگ ہنسائی ہوئی۔
اس کا اندازہ نہ عمران خان کو ہو سکتا ہے نہ ہی ان کے کسی ورغلائے ہوئے ٹرالر کو۔۔بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ "جو بھارت نہیں کر سکا وہ عمران خان اور ان کے تربیت یافتہ ٹرالرز نے کر دکھایا"۔۔لیکن FIA نے سائبر کرائم سرکل کے ڈائریکٹر وقارالدین سید کی سربراہی میں تین رکنی ٹیم قائم کر دی ہے جو شہیدوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ چلانے والوں کے پیچھے کارفرما عناصر کو تلاش کریگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔