09 اگست ، 2022
ملک میں حکومت مخالف سرگرمیاں عروج پر ہیں اور انہیں غیر فعال و غیر مؤثر کرنے کیلئے حکومت کی جوابی کارروائیاں بھی جاری ہیں، گو کہ یہ صورتحال کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں کہ معاشی بدحالی کا شکار ایک ایسا ملک جس کے بارے میں کل تک دیوالیہ ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کیا وہ ان حالات میں جمہوریت کے نام پر سیاسی عیاشی کا متحمل ہوسکتا ہے؟
اس قومی المیے کے محرکات و مضمرات سے بے نیاز حکومت گرانے اور بچانے کیلئے یہ عمل پوری شدت سے جاری ہے جسے جمہوریت کا حسن، آزادی اظہار اور اپوزیشن کا استحقاق قرار دیکر مہنگائی کے بوجھ میں دبے لوگوں کی چیخوں کو سیاسی نعروں میں دبایا جارہا ہے۔
اس سارے ماحول میں پاکستانی سیاست کے اہم کردار سابق صدر آصف علی زرداری کی خبروں میں گمشدگی کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے گو کہ انکا میڈیا سیل اہم مواقع کی مناسب سے ان سے منسوب بیانات جاری کرکے انکے فعال ہونے کا احساس دلاتے رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
لیکن یہ رسمی بیان انکی غیر حاضری کی شدت تازہ کرنے کے موجب بنتے ہیں۔ آصف علی زرداری جو شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے دعویدار ہیں، کے بعد انہوں نے انکے صاحبزادے حمزہ شہباز کو بھی پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کیا تھا اور لاہور میں پی ڈی ایم اجلاس میں انہیں آشیرباد دیتے ہوئے انہیں کامیابی کی تھپکی بھی دی تھی اس تناظر میں انکی دیگر متعلقہ سرگرمیوں کیساتھ ساتھ چوہدری شجاعت حسین سے انکی رہائش پر تواتر کیساتھ ہونیوالی ملاقاتیں ، پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کی ان سے ملاقاتوں سے انکار سمیت سابق صدر کی ان سرگرمیوں کو انتہائی اہم قرار دیا جارہا تھا اور پھر جب حمزہ شہباز کے بجائے پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن گئے تو آصف زرداری کی انہی اہم سرگرمیوں کو معنی خیز قرار دیا گیا اور اچانک ہی عین اس موقع پر جب حکومت اور اسکی اتحادی جماعتوں نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کے مطالبہ پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس مقصد کیلئے تمام جماعتوں کے قائدین سپریم کورٹ گئے لیکن چند گھنٹے قبل اچانک ہی آصف زرداری دبئی روانہ ہوگئے اور اس اچانک روانگی میں اتنی پراسراریت تھی کہ انکے قریب رہنے والے میڈیا کے نمائندوں کو بھی یہ علم نہ ہوسکا کہ آصف زرداری نے کہاں سے دبئی کیلئے اڑان بھری ہے اور کیا وہ واقعی عرب امارات کے طیارے سے دبئی گئے تھے یا پرائیویٹ طیارے کے ذریعے باہر گئے اور ان کیساتھ جانیوالوں میں کون کون لوگ شامل تھے پھر اس بات کے بھی مصدقہ شواہد موجود نہیں ہیں کہ کیا سابق صدر واقعی دبئی ہی گئے تھے اور اگر واقعتاً ایسا ہی تھا تو کیا تمام دنوں ان کا قیام اور مصروفیات دبئی میں ہی تھیں؟
وہاں انہوں نے بعض اہم اور طاقتور لوگوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں؟ اور کیا یہ بھی درست ہے کہ ایک ٹیلیفون کال پر انہیں فوری ملک سے باہر جانا پڑا یہ اور اس سے جڑے کئی سوالات موجود ہیں جو خبروں اور تبصروں میں کئے جاچکے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے انکا کوئی تسلی بخش اور قابل یقین جواب نہیں آیا البتہ دبئی میں سکونت پذیر انکی صاحبزادی بختاور بھٹو نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ زرداری صاحب اپنی 67ویں سالگرہ اپنے نو ماہ کے نواسے کیساتھ منانے کیلئے دبئی آئے ہیں۔
سابق صدر کو میڈیا میں لاپتہ ہوئے تقریباً دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں اور اس دوران انکی رسمی حاضری اور وہ بھی بے ضرر بیانات پر مشتمل ہے جبکہ صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ خود بعض وہ حکومتی حلقے جو اعلیٰ سطحی معاملات سے لاعلم اور بے خبر ہوتے ہیں آصف زرداری کے منظر پر آنے کے منتظر ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ وہ کسی مشن کی تکمیل کو یقینی بناکر ہی منظر پر آئیں گے ۔