بلاگ
Time 14 اگست ، 2022

آج صرف ایک سبز ہلالی پرچم

آج اتوار ہے۔ بیٹے بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے سوالات کا جواب دینے کا دن۔

مگر آج کا اتوار تو بہت ہی اہم ہے بلکہ اہم ترین۔ یہ ہماری آزادی کے 75ویں سال یعنی ڈائمنڈ جوبلی کے سال کا یوم آزادی ہے ۔ وہ 14اگست جس کا خاص طور پر انتظار کیا جاتا ہے۔ زندہ قومیں، مستحکم معاشرے اپنی آزادی کی سلور، گولڈن اور دوسری جوبلیاں بڑی شان و شوکت سے مناتی ہیں۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ہاں کبھی رجیم چینج ،کبھی کوئی سانحہ،سلور جوبلی آئی 14اگست 1972ء کو تو سانحہ سقوط مشرقی پاکستان نے باقی ماندہ پاکستان کو غمگین کیا ہوا تھا۔ ابھی اس شکست کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے۔ پھر 14اگست 1997۔

تیاریاں گولڈن جوبلی کی پی پی پی حکومت نے کی تھیں مگر یہ نصیب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تھی اور اب 14اگست 2022آرہی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں مگر اپریل میں حکومت بدل گئی اور اس کے بعد سے اس قدر سنگین محاذ آرائی جاری ہے کہ ڈائمنڈ جوبلی کی خوشیوں کو ترجیح ہی نہیں مل رہی ۔ بارہ جماعتیں اپنی حکومت کے دفاع میں رات دن مصروف ہیں۔ پی ٹی آئی کی دو صوبوں اور دو اکائیوں میں حکومتیں ہیں۔ لیکن اس کی اپنی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔

 اس لئے ان کی ساری توجہ اپنے دفاع پر ہے۔ دونوں طرف عدم تحفظ کا احساس بہت شدید ہے۔ آج کے دن کی اہمیت، خصوصیت، وقعت اور عظمت سیاسی محاذ آرائی کے غبار میں چھپ کر رہ گئی ہے۔ ہمارا سسٹم کچھ ایسا بن گیا ہے کہ اسلام آباد میں اگر کشیدگی ہو، تنائو ہو تو پورا پاکستان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ پھر یہ بارشیں اب کے اتنی طوفانی ہوگئی ہیں کہ گلی کوچے، شاہراہیں سب ان کی زد میں ہیں۔ لوگوں کو اپنے گھروں ،روزگار اور املاک کی فکر ہے۔ مہنگائی بھی 75 سال کے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔

لیکن مجھے ان نوجوانوں سے محبت ہےجو ان سب مصائب، پریشانیوں کے باوجود گھروں سےنکلتے ہیں اپنے گھر پر ایک پرچم لہراکر۔ اپنے ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم لے کر گلیوں شاہراہوں پر لہراتے ہیں۔ 13اگست کی شب جب گھڑی کی سوئیاں آپس میں ملتی ہیں تو پاکستان کےسبھی شہروں میں آسمان روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔ ہم سب اپنے گہرے رنج و غم بھول جاتے ہیں۔ اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ہم چند لمحوں کے لئے ریاست کا استبداد سبھی فراموش کردیتے ہیں۔

جاگیرداروں کی اجارہ داریاں بھلا دیتے ہیں۔ ٹھیکیداروں کی بدعنوانیاں دماغ سے ہٹا دیتے ہیں۔ اپنے رہنمائوں کے جھوٹ کچرے دانوں میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ تلخ حقائق ہیں لیکن ان سب کی اس حقیقت کے آگے کوئی وقعت نہیں ہے کہ 14اگست ہماری آزادی کا دن ہے۔ یہ آزادی ہمارے بزرگ اور مائوں ،بہنوں ،بھائیوں نے لاکھوں جانیں قربان کرکے ہمارے لئے حاصل کی تھی۔

 ہم سوچتے ہیں کہ محرومیاں ناانصافیاں مظالم اپنی جگہ۔ آزادی کی قیمت ان مظلوم کشمیریوں سے پوچھیں جو 1931ء سے اس کے حصول کے لئے نسل در نسل قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ آزادی کی وقعت ان مسلمانوں سے دریافت کریں جن پر متعصب بی جے پی نے عرصۂ حیات تنگ کررکھا ہے؟گھروں سے بے گھر کئے جارہے ہیں۔ روزگار چھینا جارہا ہے۔ مساجد شہید کی جارہی ہیں۔ آزادی کی قدر روہنگیا کے مسلمانوں سے جاننے کی کوشش کریں جو صرف کلمۂ طیبہ کے قائل ہونے کی بنا پر بے گھر،بے وطن کئے جارہے ہیں۔ آزادی کااحساس فلسطین کے مظلوم اور مجبور نوجوانوں سے حاصل کریں، جن پر ہر رات قیامت بن کر گزرتی ہے۔

آفرین ہے ان نوجوانوں پر جو 14اگست کی صبح دوپہر کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد، گلگت اور دوسرے سینکڑوں شہروں کی گلیوں، شاہراہوں، بازاروں میں موٹر سائیکلوں پر سبز پرچم لئے نکلتے ہیں۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ کچھ گدھا گاڑیوں پر ہیں۔ تانگوں پر، اونٹ گاڑیوں پر بڑی چھوٹی کاروں میں ایک ہی دھن۔ ایک ہی نعرہ۔ پاکستان زندہ باد۔ آج پرچم بھی صرف ایک ہے۔ رہبر بھی صرف ایک ہی ہے قائداعظم محمد علی جناح۔

آج یہ مستقبل کےمعمار آزادی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ اس پرچم کے سائے تلے وہ ایک ہیں۔ 14اگست کے علاوہ اس ایک دن کے ماسوا 364دن وہ کسی نہ کسی پارٹی کے وابستگان ہوتے ہیں۔ کسی نہ کسی لیڈر کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ لیکن آج وہ صرف پاکستان کے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ ان کی پہچان پاکستان ہے۔ ان کے جو کزن، رشتے دار دنیا بھر میں دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں۔ ان کے حوالے سے بھی انہیں ادر اک ہے کہ آپ کی شناخت صرف آپ کا سبز پاسپورٹ ہے۔ آپ کی پاکستانی شہریت ہے۔ وہاں نہ پارٹی سے وابستگی سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ نہ قبائلی پس منظر سے۔ اور نہ کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کون سے فرقے سے ہیں؟ آج وہ اپنے آزاد وطن کے آزاد گلی کوچوں میں، بازاروں میں، پارکوں میں اس فخر اور اسی سرشاری سے گھوم رہے ہیں کہ وہ آزاد خودمختار پاکستان کے عظیم شہری ہیں۔

ہماری نسل کو یقیناً وہ دن یاد آتے ہیں، مال گاڑی کے کھلے ڈبے میں چلچلاتی دھوپ میں لاہور کا سفر۔ بلوائیوں کے نعرے۔ سکھوں کی کرپانیں۔ ہندوئوں کی بندوقیں۔ مہاجر وں میں بھوک پیاس، زخمی ، دم توڑتے بیماراور مقامی پاکستانیوں کا مہاجرین کے لئے ایثار، ایک نئے ملک کے لئے والہانہ جذبہ۔ 1947ء کے ان شہدا کے ساتھ ساتھ 1948ء ، 1965ء، 1971ء کی جنگوں میں پاکستان پر جانیں نثار کرنے والے بھی ہمارے ذہن کے پردے پر لہراتے ہیں۔ آج کی آزادی ،سرشاری ان شہدا کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ اور جتنی پریشانیاں ہیں، مصائب ہیں،محرومیاں ہیں، یہ ان حکمرانوں کی خود غرضیوں کا نتیجہ ہیں،جو ہم پر مسلط کئے جاتے رہے،جنہوں نے صرف اپنی املاک میں اضافہ کیا، خود امیر ہوتے رہے، ملک کو غریب کرتے رہے۔ ہمیں وہ سرفروش بھی یاد آتے ہیں، جو ملک میں جمہوریت کے لئے ،انصاف کے لئے تختۂ دار کو چومتے رہے۔ کال کوٹھڑیوں میں چمکتی جوانیاں کاٹتے رہے۔

مگر آج ایک مبارک، مقدس دن ہے۔ ایک عظیم مملکت کا جنم دن۔ آج ایک دوسرے کو فون، واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام پر صرف آزادی مبارک۔ آج کوئی اور کوئی لہر نہیں ہونی چاہئے ۔ صرف پاکستان پر۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔