24 اگست ، 2022
کپتان وہ کرکٹ کا ہو یا سیاست کا، ہمیشہ سے اٹیکنگ ہی رہا ہے ،بس اتنے سارے تجربہ کار سیاست دان یہ نہ سمجھ سکے ،وہی کیا، وہ بھی نہ سمجھ سکے جن کی مدد سے وہ 2018ء میں وزیراعظم بنا۔ اب آپ اس کو نااہل کردیں یا گرفتار کرلیں اس کی مقبولیت کے گراف کو نیچے نہیں لا پائیں گے۔ پہلے دن کہا تھا عدم اعتماد کی تحریک ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا۔
عمران نے سیاست کا ایک نیا انداز اپنایا جو غیر روایتی تھا اور اب تک اس میں وہ کامیاب نظر آ رہا ہے۔ اس وقت وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے جس کیلئے اس کو ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جو عدم اعتماد کی تحریک کے کرتا دھرتا رہے ہیں۔ کہاں 2021ء میں اس کی جماعت کو ایک کے بعد ایک ضمنی الیکشن میں ناکامی کا سامنا تھا اور کہاں اپریل 2022ء کے بعد پنجاب میں 20میں سے 15 نشستوں پر کامیابی ملی، پنجاب حکومت واپس ملی اور اب 21؍اگست کو کراچی کے ضمنی الیکشن میں بھی فتح نصیب ہوئی ۔ دیکھتے ہیں بلدیاتی انتخابات اور پھر 9دیگر نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں کیا ہوتا ہے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا
تصور کریں اس کے اندازِ سیاست کا کہ اس نے اپنے چیف آف اسٹاف شہباز گِل کی ایک سنگین غلطی کو، اس پر مبینہ ٹارچر کی خبروں کو اس طرح اپنے حق میں موڑ لیا کہ آج اصل مقدمہ پیچھے رہ گیا اور انسانی حقوق کا سوال آگے آگیا۔
حکومتی اتحادیوں بشمول مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے پاس اس وقت عمران کا توڑ نظر نہیں آرہا جس کی انتہا یہ ہے کہ خود ان کی حکومت میں چار ماہ گزرنے کے بعد بھی سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو واپس آنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ بازی بڑی تیزی سے ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے۔ چار ماہ میں چند بنیادی غلطیاں بیان کرتا چلوں۔
(1)عدم اعتماد، (2)شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا، (3)حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانا، (4)مہنگائی کے طوفان پر قابو پانے میں ناکامی، (5)قومی انتخابات نہ کرانا، (6)25؍مئی کو ریاستی جبر کا استعمال (7)نیب کے قوانین میں ایسی ترامیم کرنا جس سے خود ان کو فائدہ پہنچے، (8)میڈیا کے ایک خاص گروپ کے خلاف بے جا پابندی، (9)شہباز گِل کے معاملے کو غلط انداز میں ہینڈل کرنا اور شاید اب وہ ایک دسویں غلطی بھی کرنے جارہے ہیں، گرفتار کرنے کی۔ سیاست دان کو بھی کبھی نقصان ہوا ہے اس طرح کے اقدام سے؟ آج تک تو فائدہ ہی ہوا ہے۔
اب آتے ہیں عمران کی چند غلطیوں پر (1)عدم اعتماد کی تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد فوری طور پر قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا مگر باقی اسمبلیوں میں بیٹھے رہنا، (2)ایک ساتھ کئی محاذ کھول لینا جیسا کہ نیوٹرلز، حکومتی اتحاد، عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے محاذ آرائی (3)عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ہی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں تاخیر مبینہ امریکی سازش کے حوالے سے، (4)لانگ مارچ کرنے میں جلد بازی یہ جانتے ہوئے بھی کے نتائج شاید مثبت نہ نکلیں، (5)اعلیٰ عدلیہ پر غیر ضروری تنقید اور (6)تحریک کے لئے کسی بی اور سی پلان کا نہ ہونا۔
بہرحال عمران اس لحاظ سے اب تک خوش نصیب ہیں کہ وہ ایک غلطی کرتے ہیں تو حکومت تین غلطیاں کرتی ہے۔ سیاست اور جمہوری معاشروں میں حکومتیں ایک پھل داردرخت کی مانند ہوتی ہیں جو ہمیشہ جھکتا ہے۔ یہاں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ صاحب کوبھارتی فلم شعلے کے ’’گبھر‘‘ کی طرح پیش کیا جارہا ہے یہ جانے بغیر کہ ریاستی جبر کبھی کسی سویلین حکمران کے حق میں نہیں گیا اور خود رانا صاحب کوبھی اس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان سارے اقدامات کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ مسلم لیگ 17؍جولائی کو 20 میں سے 15 ضمنی الیکشن ہار گئی۔ ایم کیو ایم کے اندر یہ باتیں ہورہی ہیں کہ پی ٹی آئی سے اتحاد توڑنا اور پی پی پی سے جوڑنا بڑی سیاسی غلطی تھی۔
اور تو اور خود مسلم لیگ کے اندر سے اب یہ آوازیں زیادہ بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں کہ اسی طرح چلتے رہے تو عمران کو آنے سے روکنا مشکل ہوجائے گا۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد اور لاہور میں مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے دوستوں سے ملاقاتوں سے اندازہ ہوا کہ عمران خان کی معزولی کے بعد پی ٹی آئی رہنما اور کارکن زیادہ پُرجوش ہیں اور مسلم لیگ کے ساتھی زیادہ مایوس کہ ’غلطی ہوگئی‘۔ پنجاب جہاں دورِ عثمان بزدار کے بعد مسلم لیگ کو صرف عام انتخابات کا انتظار کرنا تھا وہاں ایسی سنگین غلطیاں کی گئیں کہ آج اسے اپنے گھر میں ڈبل شفٹ کرنی پڑ رہی ہے ،سیاست بچانے کےلئے۔
جو غلطی میاں نوازشریف نے 2000ء میں پرویز مشرف سے 10 سال جلاوطنی گزارنے کا معاہدہ کرکے سعودی عرب جاکر کی تھی وہی غلطی انہوں نے تین سال پہلے ’علاج‘ کی غرض سے لندن جاکر کی۔ اب شاید تھوڑی دیر ہوگئی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کپتان مسلسل باؤنسر کرارہا ہے، اٹیک کررہا ہے نتائج کی پروا کئے بغیر مگر اس نے میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا کی طاقت کا ایسا استعمال کیا ہے اور کررہا ہے کہ کوریج لائیو یا ریکارڈ کرکے دکھائی جائے سیاست کا محور وہی ہے اور وہ اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔
آج کے دور میں ویسے بھی آزادیٔ اظہار پر پابندی کہاں کامیاب ہوتی ہے۔ شہباز گل تو خوش نصیب ہیں کہ کم از کم انہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔ ورنہ کراچی سے خیبر تک کتنے سیاسی کارکن لاپتہ ہوجاتے ہیں،کون سی عدالت، کیسا انصاف۔ گل صاحب اگر صحت یاب ہیں تو بہت اچھی بات ہے اور ٹارچر ہوا ہے تو ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہئے۔ آج سے 42 سال پہلے اسی شہر کراچی میں ایک سیاسی رہنما نظیر عباسی کو بدترین ٹارچر کرکے شہید کردیا گیا۔ اخبارات میں صرف چار لائن کا ہینڈ آؤٹ چھپا، ’’ایک شخص نظیر عباسی پولیس حراست میں دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگیا ہے‘‘۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔