28 اگست ، 2022
1972 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی پہلی سالگرہ پر دسمبر میں ، میں نے ’اخبارِ جہاں‘ کے لیے ان کا انٹرویو کیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں غیر جمہوری طریقے سے ہٹایا گیا تو ہمالیہ کے پہاڑ روئیں گے۔ روزنامہ ’ڈان‘ کے اس وقت کے ایڈیٹر الطاف گوہر نے اداریہ لکھا:’Mountains Don't Cry‘۔ جب سیلاب آیا تو جگہ جگہ سیلابی مقامات پر بھٹو صاحب نے الطاف گوہر کو مخاطب کرکے کہا،’ دیکھو پہاڑ اس طرح روتے ہیں۔‘
ہاں پہاڑ رو رہے ہیں۔ زار و قطار رورہے ہیں۔ کوہ سلیمان کے آنسو تو ریلے بن کر تباہی مچارہے ہیں۔ بلوچستان میں پہاڑی سلسلے4000 بتائے جارہے ہیں۔ سب کے اَشک رواں ہیں۔ سندھ میں کیرتھر سمیت 500 سلسلے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 1130۔ جنوبی پنجاب میں بھی پہاڑی نالوں نے قیامت برپا کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمندر دیا ہے۔دریا عنایت کیے ہیں۔ پہاڑوں کے سلسلے۔ سر سبز کوہسار ۔ حسین وادیاں۔ بنجر پہاڑ مگر ان کے اندر سونا تانبا اور کئی دھاتیں سانس لے رہی ہیں۔ کئی ہزار برس پرانے گلیشیئر۔
صدیوں سے ان علاقوں میں رہنے والے عظیم جفاکش انسان ان پہاڑوں، دریاؤں اور سمندروں کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔ قدرت اور انسان ایک دوسرے کے ہزار ہا سال سے آشنا ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا سوچتے بھی نہیں ہیں لیکن کمرشلزم کے پرستار۔ کاروباری ذہنیت کے لالچی۔ سمندر سے زمین چھینتے ہیں۔ دریاؤں کے کنارے بلڈنگیں کھڑی کرتے ہیں۔ کراچی سمیت بڑے شہروں میں برساتی پانی کے قدرتی راستوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور ہائوسنگ اتھارٹیز کھڑی کررہے ہیں۔ سمندر کو برہم کررہے ہیں۔ پانی کو ناراض کررہے ہیں۔ سندھو ندی کے صبر کا پیمانہ لبریز کررہے ہیں۔ نہروں کے ضبط کا امتحان لے رہے ہیں۔ ہزاروں میٹر بلند گلیشیئر ہمارے منصوبہ سازوں، ٹھیکیداروں اور بلڈرز کو بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں۔ لہلہاتے کھیت جب رہائشی اسکیموں میں بدلے جاتے ہیں تو ان پر کیا گزرتی ہے؟ طمع اور ہوس کے بازار سجے ہیں، جن میں سیاسی اور فوجی حکمران دونوں شامل ہیں۔ نو دولتیے بڑی بڑی اسکیمیں منظور کرواتے ہیں۔ فطرت کو چیلنج کرتے ہیں۔ زمین کی تہیں غصے میں آتی ہیں۔
ہر علاقے کے عام پاکستانیوں کو تو ان نزاکتوں کا احساس ہے۔ لیکن جو ابولہوس دوسرے علاقوں سے آتے ہیں،وہ صرف فلک بوس بلڈنگوں میں اپنے اور اپنی اولادوں کیلئے ڈالر، درہم ،دینار اور روپیہ دیکھتے ہیں۔ فطرت کے اعتبار سے جتنے خوبصورت مقامات ہوتے ہیں۔ وہ اتنے ہی مہنگے بیچے جاتے ہیں۔ ہریالی کے حسن کی جگہ اینٹوں اور بلاکوں کے ڈربے کھڑے کردیے جاتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ یہ وادیاں، سمندر، زمینیں اور نہریں انتقام لینے پر اتریں تو یہ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ اب پورا پاکستان پوری دنیا 14 جون سے روزانہ کچے، پکے چھوٹے گھر پانی کی نذر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔پہاڑ رورہے ہیں۔ ان کے آنسو شہروں کو بہاکر لے جارہے ہیں۔ کسی نے سنا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ تم نے یہ قیمتی میٹھا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم یا اور بڑے ڈیم کیوں نہیں بنائے۔ قدرت کا غصّہ روکنے کی تدابیر کیوں اختیار نہیں کیں؟
بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا میں لاکھوں ہم وطن بے گھر ہوچکے ہیں۔ قیمتی سامان تو کیا اپنے پہننے والے کپڑے بھی نہیں بچاسکے۔ بلدیاتی ادارے بھی انتقام لے رہے ہیں۔ ان سے اختیارات چھین لیے۔ محکمۂ شہری دفاع بے اثر کردیا گیا ۔ اتھارٹیز قائم کردی گئیں۔ شہری دفاع کے رضا کار اپنے شہر کے جانے پہچانے ہوتے تھے۔ انہیں اپنے شہر کے ہر گھر ہر گلی سے عشق ہوتا تھا۔ بزرگ عورتیں ان کی مائیں، نوجوان بیٹیاں ان کی بہنیں انہیں مشکل حالات کو آسان بنانے کی تربیت دی جاتی تھی۔ وہ آفاتِ ناگہانی کے دوران عوام کی خدمت عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔
انگریز زندگی کو محفوظ اور آسان بنانے کے لیے جو سسٹم، معیاری اصول چھوڑ کر گیا، جس میں سمندر دریاؤں، نہروں، شہروں میں گندے نالوں کی صفائی کی تاریخیں مقرر تھیں۔ بجٹ مختص تھا۔ اس سسٹم کو1947سے سیاسی اور فوجی حکومتوں نے پورے اہتمام سے بے اثر کردیا۔ وی آئی پی کلچر غالب ہوگیا۔ وہ سسٹم نہیں رہا جہاں تمام ضروری کام ملک کے مفاد میں از خود ہوتے تھے۔ اب قانون کی سختی اکثریت یعنی 98فی صد کیلئے ہے۔ قانون سے آزادی دو فی صدکیلئے۔ سسٹم کو اس طرح بے اثر کرنے کا نتیجہ ہم سب 14جون سے دیکھ رہے ہیں۔ دشت دریا بن رہے ہیں۔ شاہراہیں ندیاں۔ بڑے میدان ٹھاٹھیں مارتے سمندر۔ پہاڑوں کے آنسوئوں کے دھاروں کو راستہ نہیں مل رہا تو گائوں غرقاب ہورہے ہیں۔ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ حکومتی ارکانِ اسمبلی،وزیر، سردار اپنے رقبے بچانے کے لیے سیلاب کا رُخ عام بستیوں کی طرف موڑ رہے ہیں۔
یہ انتہائی غیر معمولی صورت حال ہے۔ 22میں سے تین کروڑ سیلاب سے دربدر ہیں۔ ہم تو اپنے محفوظ گھروں میں ٹی وی پر یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ ذرا اپنے آپ کو ان ہم وطنوں کی جگہ سوچیں کہ انہیں نہ رہنے کی جگہ نہ سونے کا مقام۔ حرائج ضروریہ سے فراغت کیسے کرتے ہوں گے۔ کھانے کو کچھ نہیں ہے یہ بہت ہی جفاکش اور غیور لوگ ہیں۔ صدیوں سے اپنے مسائل خود حل کررہے ہیں۔ اپنے اور اپنے بچوں کے دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے اپنے دست و بازو پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم لالچی مفاد پرست طبقوں کی کوتاہیوں کی سزا انہیں بھگتنی پڑتی ہے۔ ماحولیات والے تو 90 کی دہائی سے خبردار کررہے ہیں۔ موسم اپنے تیور بدل رہا ہے۔ ماحول گرم ہورہا ہے۔
امریکہ ، یورپ اور یہاں ہمارے ہمسائے بھارت میں ایسی ابتلائوں میں بل گیٹس، دوسرے امراء۔ بھارت میں برلا ، ٹاٹا،پریم جی کروڑوں روپے کے عطیات دیتے ہیں۔ہم غریب عوام سے ،متوسط طبقے سے اور غیر ملکیوں سے امداد کی اپیل کرتے ہیں۔
یہ غیر معمولی سیلاب ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی ہے۔ تعمیر نَو میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ صرف حکومت کے محکموں پر اسے نہ چھوڑیں۔ جب یہ فوری امداد، بچاؤ اور کیمپوں میں راشن کی فراہمی کا وقت گزر جائے تو ہماری انجینئرنگ اور دوسری یونیورسٹیوں کو اپنے اپنے علاقوں کے نقصانات اور آئندہ تعمیرات کا تخمینہ لگانا ہوگا۔ اور اس سے بھی خطرناک طوفانوں اور سیلابوں کا تصور کرکے حفاظتی بند، بڑے ڈیم اور مضبوط پل بنانے ہوں گے۔ دوسری قومیں یہ سب کچھ کرسکتی ہیں۔ ہم بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن تدبر، متانت اور سنجیدگی کے ساتھ۔ ہم ایسا کرسکے تو پھر پہاڑ ہماری حالت پر زار و قطار نہیں روئیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔