Time 28 اگست ، 2022
بلاگ

سیلاب،کیاالیکشن بھی بہالےگیا؟

نومبر میں سردیاں شروع ہونے کے سبب بعض علاقوں میں الیکشن ویسے بھی ممکن نہیں ہوں گے — فوٹو: فائل
نومبر میں سردیاں شروع ہونے کے سبب بعض علاقوں میں الیکشن ویسے بھی ممکن نہیں ہوں گے — فوٹو: فائل

ملک کے چاروں صوبوں میں آیاسیلاب کیا نومبرسے پہلے عام انتخابات سے جڑے وہ دل کے ارمان بھی اپنے ساتھ بہا لےگیا جو تحریک انصاف دن رات دیکھ رہی تھی؟

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ ملک کے مختلف علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کو سیلاب زدگان کی شدید مخالفت کاسامنا ہورہا ہے۔ وہ متاثرین جن کے گھر گِر گئے، مال،مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے اور کھانے کو دو وقت کی روٹی بھی میسرنہیں، ان میں سے بعض ایسے رہنماؤں کوکھری کھری سنا رہے ہیں جو بظاہر تو امداد دینے آرہے ہیں مگر درپردہ مقصد الیکشن کےلیے ووٹ کھرے کرنا ہے۔

جو تباہی بلوچستان، سندھ ،خیبرپختونخوا اور پنجاب کے بعض شہروں اور دیہاتوں میں ہوئی ہے، وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بے لوث خدمت کی جائے۔ بے رحمی برتنے کے بجائے کچھ دیر کیلئے بھول جائیں کہ سیلاب متاثرین ووٹرہیں، یہ انہیں انسان اوراپنا ہم وطن سمجھنے کا لمحہ ہے، حقیقی معنوں میں انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا وقت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بعض علاقوں میں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے ملک کو قیام پاکستان سے بھی پچھلی حالت میں دھکیل دیا ہے۔ جیتے جاگتے گھرانے اُجڑ گئے، صاحب حیثیت افراد در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، ان کے ہاتھ کسی کے آگے پھیلنے سے پہلے سر اپنے سامنے ندامت سے جھکے ہوئے ہیں۔

اس قدرتی آفت کو امتحان سمجھ بھی لیں تو سوال یہ ہے کہ کس کا امتحان؟ پہلے سے مصیبت کے ماروں کا امتحان یا ان حکومتوں، اداروں اور افراد کی اصلیت جاننے کا امتحان جنہوں نے تعمیراتی منصوبوں کیلئے مختص رقم کواپنی جیبوں میں بھرا تھا۔

اول تو مکانات گرنا بھی حکومت کی غلطی ہےکیونکہ مکان بنانے سے پہلے نقشے کی منظوری ضروری ہے، کچے مکانات بننے کے لیے چور دروازے کھولے ہی اس لیے جاتے ہیں تاکہ غریب ایسے مکان بنا کر قناعت کرلے اور حکومت سے یہ سوال نہ پوچھے کہ آخر اس کی اتنی آمدنی کیوں نہیں کہ وہ بھی بچوں کو ایسا سائبان دے سکے جو موسمی حالات کا مقابلہ کرلے، آخر کسی بھی صوبے میں گورنرہاؤس یا وزیراعلیٰ ہاؤس تو نہیں گرا؟

کچے مکانات گرنا غریب کی غلطی مان بھی لیں تو غریب کی خون پسینے کی کمائی کا ٹیکس نچوڑ کر کاغذ کی سڑکیں، گتے کے پل اور گارے کے ڈیم بنانے والوں کو کیا کہیں؟

عوام تو بہت شرمندہ ہولیے کیا وہ لوگ بھی شرمندہ ہوں گے جو غریبوں کے منہ سے نوالہ بھی ٹیکس کے نام پر کھینچ کر ان منصوبوں پر اپنے ناموں کی تختیاں لگاتے رہے ہیں؟ کیوں نہ یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ جو جو سڑک، پل اور ڈیم ٹوٹے ہیں،ان کی تعمیر نو انہی کمپنیوں سے کرائی جائے گی جنہوں نے انہیں بنانے کا ٹھیکہ لے کر قوم کو چونا لگایا تھا؟ اورکیوں نہ ساتھ ہی یہ بھی توبہ کرلی جائے کہ اب کے بعد انہیں دوبارہ ٹھیکا نہیں دیا جائےگا؟

کسی کو سزاوار ٹھہرانے کا مرحلہ تو چلیں بعد میں آئے گا پہلے تو یہ تخمینہ لگایا جائے کہ مجموعی طورپر کتنی سڑکیں، پل اورڈیم ٹوٹے ہیں،ان پر کتنی لاگت آئی تھی، کتنے میں تعمیر نو ہوگی اور اس کیلئے رقم کہاں سے لائی جائےگی؟

معروضی جائزے کی اہمیت یوں بھی ہے کہ عمران خان لاکھ چاہیں، نومبر سے پہلے اب الیکشن کرانا ممکن ہی نہیں رہا۔ یہ سیلاب قبل ازوقت عام انتخابات کے خوابوں کو چکنا چور کرچکا۔ نومبر میں سردیاں شروع ہونے کے سبب بعض علاقوں میں الیکشن ویسے بھی ممکن نہیں ہوں گے یعنی بغیرکسی مشکل کے انتخابات تو اب اگلے سال کے اوائل ہی میں ممکن ہیں۔

ابھی تومتاثرین کی بحالی اورتباہ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو پرفوری توجہ کا مرحلہ ہے۔

یہ ضرور ہے کہ الیکشن سے پہلے ایک اہم مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ مقابلہ تعمیر میں سبقت لے جانے کا ہے۔

وفاقی سطح پر عالمی امداد کی کوششیں اپنی جگہ، اوورسیز کمیونٹی سے امداد جمع کرنے کے پلان اپنی جگہ،ہر صوبے کو اس بات میں مقابلہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ذرائع، تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر صاحب حیثیت افراد کو کیا مراعات دے کر جلد از جلد متاثرین کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرسکتا ہے اور بہتر انفرا اسٹرکچر کی فراہمی ممکن بناسکتا ہے۔

اس ملک میں جہاں ڈیم کی تعمیر ہی نہیں کئی دیگر معاملوں پر بھی قوم کو غیرت کے چابک سے بار بارجگایا جا چکا ہو، بیٹیوں کے زیورات اور بیواؤں کے مکانات تک جمع کیے جا چکے ہوں، یہ چیلنج تو ضرور ہوگا کہ اس بارحکومتیں اپنی ساکھ کیسے قائم کریں گی، وہ ماضی کی طرح لوگوں کو کیسے آمادہ کریں گی کہ جی جان لٹادیں اور تعمیر نو میں حصہ ڈالیں۔

ایک بات طے ہے جس صوبے نے بھی یہ مقابلہ جیت لیا، وہ نیا پاکستان بنائے یا نہ بنائے، قائداعظم والا اصل پاکستان ضرور بنالےگا۔

اس پاکستان کو بنانے کیلئے دنیا سے امداد ضرور لیں مگراس بار دوسروں کی جیبیں کاٹ کرنہیں، اپنی جیب سے بنائیں تاکہ ملک کے قیام کی 75 ویں سالگرہ پرقوم آزادی کا محض لفظی ترانہ نہ دہرائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔