بلاگ
Time 18 ستمبر ، 2022

کوئی چوائس باقی نہیں

سب سے بڑا معمہ جواس وطنِ عزیز کو درپیش ہے، وہ ہے تباہ حال لوگوں کو بحال کرنا یا پھر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے ہوئے مالیاتی خسارہ اور معاشی نمو کم کرنا۔ سیلاب کی قدرتی و انسانی آفت نے آئی ایم ایف کے حالیہ دو ریویوز کو سیلاب برد کردیا ہے۔ آفت زدہ اور بحران زدہ معیشت میں کوئی دم خم نہیں کہ یہ آئی ایم ایف کی جکڑ بندیوں کو سہار پائے۔

 ورلڈ بینک کے بعد از سیلاب حالیہ جائزے کے مطابق حکومتی اخراجات (خاص طور پر سیلاب کے حوالے سے) کم ہوئے تو معاشی نمو 2023ء میں صفر ہوجائے گی جب کہ رواں برس یہ 1.2 فیصد سے 1.7 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ زراعت میں نمو 4.4 فیصد سے کم ہوکر 2.6 تک منفی ہوسکتی ہے۔ نہ ٹیکس پورے جمع ہوں گے اور نہ بجٹ خسارے کا ہدف پورا ہوگا اور حکومتی اخراجات 20 فیصد تک کم ہوجائیں گے۔

 خورونوش کی ضروری اشیا 40 فیصد سے زیادہ مہنگی ہوچکی ہیں جن کی قیمتوں میں فی الحال مزید اضافہ ہو گااور ہیڈلائن افراط زر 27 فیصد سے اوپر جاچکی ہے۔ جہاں کاٹن کی درآمد بڑھے گی وہیں زرعی و دیگر اجناس کی برآمدات کم ہوں گی۔ صنعتی نمو میں کمی اور برآمدات میں سکڑاؤ کے باعث تجارتی و بیرونی خسارہ بڑھے گا۔ ایسے میں ایک کروڑ 54 لاکھ مزید پاکستانی افلاس کی نذر ہوجائیں گے۔ 

اب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ایک طرف خسارے پورے نہ کرپائیں گے اور اس کوشش میں ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی بحالی میں مکمل ناکامی پر صرف آنسو بہاتے رہ جائیں گے۔ ویسے بھی ان کا ایمان آزاد منڈی پر ہے لیکن آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے باوجود روپیہ ہے کہ ڈوبتا چلا جارہا ہے اور اسٹیٹ بینک کے مطابق وہ اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے حالانکہ اس عرصہ میں نجی بینکوں کا منافع 300 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ لگتا ہے کہ 33 ملین پاکستانیوں کو نامساعد حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ ہماری دست نگر معیشت اور عالمی مالیاتی اداروں کی فرماں برداری اور مفت خور استحصالی طبقات کے مفادات کی قیمت عوام کو ادا کرنی ہے تاآنکہ غریب عوام ان کا تختہ الٹ دیں۔

اس بار ماحولیاتی طوفان آیا ہے جس کی شدت 2010 کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ 2010 کے سیلاب میں 78 اضلاع اور 2 کروڑ بیس لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اس بار 116 اضلاع اور تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ اس بار سترہ لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں، 269 پل، 6700 کلومیٹر سڑکیں اور 20 لاکھ ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔

 موسمیات کے حوالے سے ایک عالمی تنظیم (WWA) کی حالیہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق عالمی موسم کے 1.2 سیلسیس مزید گرم ہونے کے باعث پاکستان میں فقط 5 روز میں بارشوں میں 75فیصد اضافہ ہوا اور آنے والے برسوں میں اس سلسلے میں مزید شدت آئے گی۔ یقیناً دنیا میں 80فیصد آلودگی کے ذمہ دار جدید صنعتی ممالک ہیں اور شمال کے یہ ممالک جنوب کے ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی تباہی کے اثرات کے ذمہ دار ہیں۔

 لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے دو بڑے ہمسائے بھارت اور چین دنیا میں آلودگی پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہیں اور وہ 2060 اور 2070تک کاربن کے پھیلاؤ کو ختم کرنے پہ راضی ہوچکے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کےگلیشیئرز کے پگھلنے کی بڑی وجہ یہی ہمسائے ہیں۔ اور ہم یہ کہتے فخر کیوں محسوس کرتے ہیں کہ ہم تو دنیا میں کاربن کا فقط ایک فیصد پیدا کر رہے ہیں، حالانکہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس ملک کی کاربن کی آلودگی 0.7 فیصد ہو اس کا مستقبل مخدوش ہوجاتا ہے۔ ریاست کی سنجیدگی کا تو یہ عالم ہے کہ فلڈ کنٹرول اتھارٹیز نے جو رپورٹ 2010کے سیلاب کے بعد مرتب کی تھی اور جس کا اطلاق 2015-2023 کے عرصہ کے دوران ہونا تھا اس پر سرے سے عمل ہی نہیں ہوا۔

 اب پھر نقصانات کا ازسرنو تخمینہ لگایا جارہا ہے جو غالباً 40 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ لیکن ماحولیاتی نقصانات کو پورا کرنے کے لئے کیوٹو اور پیرس کے ماحولیاتی اعلان ناموں میں کوئی شق نہیں ہے۔ ابھی تک 160 ملین کی فوری امداد کی اپیل پر بھرپور ردِعمل نہیں آیا اور جب تک ہم تباہیوں کا میزانیہ بنائیں گے، سیلاب کے اترتے ہی یہ خبر عالمی میڈیا سے غائب ہوجائے گی۔ 

سلامتی کے نام پر ہماری ایجنسیوں، وزارت داخلہ اور اکنامک افیئر ڈویژن نے عالمی و مقامی سول سوسائٹی آرگنائزیشنز کا ایسا ناطقہ بند کیا ہے کہ 2010 میں اگر 158 تنظیمیں متحرک تھیں تو اس وقت صرف 70 ریلیف تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے بھی صرف سرکاری محکموں کے ذریعے ہی امداد فراہم کررہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان یو این سیکرٹری جنرل کی اپیل کو آگے بڑھاتے ہوئے قرض کو سیلاب زدگان کی بحالی اور ماحولیاتی انصاف کے لیے استعمال کرنے کی آئی ایم ایف و دیگر عالمی اداروں سے درخواست کرے اور CoP27 کے مصر میں اجلاس کے موقع پر 30 ارب ڈالرکی بحالی کا منصوبہ پیش کرے۔ بعداز سیلاب صورتحال میں آئی ایم ایف کو تمام اہداف ریویو کرنے کا کہا جائے تاکہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کچھ تو کیا جاسکے۔

تاشقند سے اچھی خبر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سے روسی صدر پیوٹن، چینی صدر ژی ودیگر سربراہان سے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے چوٹی کے اجلاس کے دوران اچھی ملاقاتیں رہیں۔ روسی صدر نے روسی گیس لائن کو تاجکستان سے آگے پاکستان تک لے جانے اور کراچی لاہور گیس پائپ لائن کی تعمیر کے علاوہ ریلوے سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ ایسی پیشکشیں ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہیں جو ہم اپنی امریکہ نوازی کے باعث سبوتاژ کرتے رہے۔ چین کے صدر نے بھی سی پیک پر عملدرآمد کے لئے آگے بڑھنے کا اشارہ دیا ہے۔ ایران نے دو طرفہ بارٹر تجارت اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی پیشکش کی ہے۔ بظاہر وزیراعظم نے مثبت ردعمل طاہر کیا ہے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ اُن میں کتنا دم خم ہے۔

 بدقسمتی سے تاشقند سمٹ میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے فاصلہ برقرار رکھا، حالانکہ ماحولیاتی تباہی کا مسئلہ پورے جنوبی ایشیاء کا سانجھا مسئلہ ہے۔ کالم کی ابتدا میں کہا تھا کہ نو چوائس لیفٹ لیکن سیاست کے دل میں کوئی انسانی جذبہ نہیں۔ عمران خان کو صرف انتخابات چاہئیں، بھلے عوام جائیں بھاڑ میں اور اتحادی حکومت کو اقتدار چاہیے بھلے ہر نیا روز نئی رسوائیاں لے کرہی کیوں نہ آئیں اور یہ رسوائیاں بڑھ کر اگلی منتخب حکومت کا سواگت کریں گی۔ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔