پاکستان

عمران کی قابلِ تحسین معذرت اور ٹرانس جینڈربل

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، عوامی مقبولیت کے چڑھتے گراف پر سوار سابق وزیر اعظم عمران خان کو توہین عدالت کے مقدمے میں دہشت گرد ثابت کرکے عوامی نمائندگی کیلئے نااہل قرار دلانے کا پی ڈی ایم کا چیختا چنگھاڑتا، نیوز فالو اپ بالآخر دم توڑ گیا۔

عدالت نے ان پر دہشت گردی کی اس دفعہ کو یکسر مسترد کر دیا جس کی خبر نے عالمی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بہت نمایاں جگہ بنائی، یہ اصل میں انٹرنیشنل میڈیا کی مجموعی حیرت اور اس پر پیشہ ورانہ افسوس کا عکاس تھا ۔ اب ضرورت اس حکومتی ذہنیت اور اس کے مطابق تائبین سے غلط انتظامی قدم اٹھانے اور اس کے غیر قانونی حکم پر عملدرآمد کرنے کے غیر آئینی رویے کی اصلاح کی ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ متذکرہ خبر نے پاکستان کے ہر باشعور شہری اور پوری دنیا کے قارئین و ناظرین کو چونکا دیا تھا کہ ان کی امن پسندی کی دنیا قائل اور معترف ہے۔ جہاں تک خان صاحب پر توہین عدالت اس حد تک کرنے کا الزام ہے کہ اس پر انہیں عوامی نمائندگی کیلئے ہی نااہل کر دیا جائے، اس الزام کو بھی عدالتی کارروائی کے دوران ان کے عدالت سے مکمل تعاون کے کنڈکٹ نے عوام کی نظر میں یقین کی حد تک مشکوک بنا دیا ہے تو عدلیہ تو پھر حتمی فیصلہ، قانون، ملکی مفاد کی حامل فیصلہ سازی اور اصلاح احوال کی پیشہ ورانہ اور وسیع النظری کی کلیت کے تناظر میں ہی دے گی تو سیاسی مقدمات کی بھرمار کے جنون میں مبتلا حکام سے بھی گزارش ہے کہ ایسے غیر ذمے دارانہ مقدمات کے اندراج کے بعد ان کی بنیاد پر اپنی سیاسی خواہشات کی تکمیل زوردار اور غیر ذمے دارانہ سیاسی ابلاغ سے حاصل کرنے پر نظرثانی کریں۔

یہ رویہ ہمیشہ فائر بیک کرتا ہے، ملکی نظام، قانون و انصاف پر تنقید اور اصلاح کی تجاویز کی بہت گنجائش موجود ہے جو ہونی بھی چاہئے لیکن حالت اتنی بھی پتلی نہیں کہ ایسے نحیف اور جگ ہنسائی کا سبب بننے والے مقدمات سے سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کے سیاسی اغراض و مقاصد پورے ہو سکیں۔ 

اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادی ریت سے مچھلیوں کی تلاش ترک کر دیں یہ ہرگز ہاتھ نہ آئیں گی۔ خان صاحب نے گھر جاکر بھی خاتون جج صاحبہ سے معذرت تک کی بات کر دی ہے تو بقول عدالت یہ ان کاذاتی معاملہ ہے لیکن اس مثبت رویے سےیہ مفروضہ تو ختم ہو گیا کہ خان کی نیت جج صاحبہ کو دھمکانے یا عدلیہ کو دبائو میں لانے کی تھی ۔

ہاں! ہمارے مجموعی سیاسی ابلاغ کے جوش خطابت میں کیا اپوزیشن اور کیا حکومتی جماعت، ایسے بڑے بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر کر جاتے ہیں کہ اس سے پورے سیاسی عمل میں ہلچل مچ جاتی ہے اور سب ہی اسٹیک ہولڈرز کا قیمتی وقت اور انرجی ہی ضائع نہیں ہوتی ،یہ میڈیا اور عدالتوں کا رُخ بھی ادھر ہی کر دیتے ہیں اس روش سے پہلے ہی سے موجود ملکی سیاسی عدم استحکام میں مزید انتشار بڑھتا ہے جس کا غالب اظہار سیاسی جماعتیں اپنے میڈیا سیلز، جلسہ ہائے عام کے خطابات اور میڈیا ٹاک شوز میں نہایت غیر ذمے دارانہ انداز میں کرتی ہیں اس سے زیادہ توجہ ماس کمیونیکیشن کی سائنس کو سمجھنے ،اسے اپلائی کرکے اپنی کمیونیکیشن کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے پر صرف کریں تو بڑے سیاسی فوائد بھی حاصل ہوں گے اور ڈیزاسٹر سے بھی بچیں گے۔

تنازعہ ٹرانس جینڈر ترمیمی ایکٹ

سینٹ کے بعد خودسوال بنی قومی اسمبلی نے متنازعہ ہوا جینڈر پرسنز ترمیمی ایکٹ کا مسودہ قانون منظور کر لیا ہے۔ ایوان بالا میں بھی اس کی مخالفت صرف جماعت اسلامی کے واحد سینیٹر مشتاق صاحب نے کی جب کہ جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت اہلحدیث کے سینیٹرز بھی وہاں موجود ہیں تاہم سوشل میڈیا میں جید علما اور سوشل میڈیا گروپس اور عوام الناس کا جو ردِعمل منظور ایکٹ کے خلاف آ رہا ہے وہ یقیناً مکمل توجہ طلب ہے۔

اس لئے کہ ان کی یہ دلیل کہ اس ترمیمی ایکٹ کو خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق، معاشرے کی ان سے بدسلوکی اور ان کی محرومیوں کی آڑ میں ہم جنس پرستی کا قانونی دروازہ کھول دیا گیا ہے جو احکام الٰہی اور قرآنی تعلیمات سے متصادم ہے، ایسا ہے تو یقیناً یہ فوری نوٹس ایبل ہے اور یہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ 

سوشل میڈیا پر ترمیمی ایکٹ کی جو تشریح کی جا رہی ہے اس کے مطابق تو بظاہر واقعی ترمیمی ایکٹ خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی جنسی پہچان کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے پہلے ہی حل شدہ مسئلے سے آگے ترامیم کا مبہم اور اصل مقصد اس قانون میں ہم جنسیت کی گنجائش کو قانوناً تسلیم کرنا ہے۔ 

اس الزام، دعوے اور تشریح کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس منظوری کو جو پروسیجر کے اعتبار سے اپنے آخری مرحلے میں ہے، روک کر اسے عوام کے لئے مشتہر کیا جائے۔ میرے جیسے عام لوگ تو زیر بحث موضوع پر ہونے والی قانون سازی کو صرف اتنا جائز سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا، جو پیدائشی عمل کے کسی قدرتی خلل کے باعث واضح جنسی پہچان کی تلاش میں ہیں ان سے ہر اعتبار سے عام شہری جیسا قانونی و سماجی سلوک ہو ان کے تمام شہری حقوق اور ان کی پہچان کا مکمل احترام لازم ہو۔

دوسری شکل خالصتاً فنی اور سائنسی نوعیت کی ہے اس کا تعلق تبدیلی جنس سے ہے جو بلوغت میں بذریعہ میڈیکل آپریشن ہوتی ہے ایسی صورت میں اگر جنسی تشخص تبدیل ہوتی ہے تو اسے قانوناً تسلیم کرنے کی قانون سازی تو موجود ہے ،اس میں اگر کوئی سقم ہے تو اسے دور ہونا چاہئے اور اس میں میڈیکل بورڈ کی حتمی رائے کے بعد ہی تبدیلی جنس کو قانوناً تسلیم ہونا چاہئے۔ اس کو تو معاشرہ پہلے ہی تسلیم کرتا ہے اور ایسے واقعات کی خبریں اخبارات کی حد تک شائع ہوتی رہتی ہیں۔ جہاں تک ہم جنس پرستی جیسی قابل مذمت اور گناہ عظیم کی حامل سماجی قباحت کا تعلق ہے، اس میں تو جہاں معمولی شائبہ بھی ہے تو اسے ہر حالت میں ختم کرنا ہے۔

سوشل میڈیا پر ترمیمی بل کی منظوری کے بعد جو ردِعمل آ رہا ہے اور اس میں جو دلائل دیئے جا رہے ہیں اس کے بعد مسودہ بل کی عوام الناس کی سطح پر تشہیر لازم ہو گئی ہے۔ ہم مزید کسی سماجی جھٹکے کے ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے اور ہم جنسی کی تو مغربی معاشروں میں ایٹ لارج مذمت ہی ہوتی ہے۔ 

امید ہےاس پر تمام مکاتب فکر کے علماءباہمی صلاح مشورے سے یکساں اور اپنی رہنمائی کا قومی موقف جلد سامنے لائیں گے۔ وماعلینا الالبلاغ

مزید خبریں :