’’آڈیو تو کبھی ویڈیو‘‘ لیک کی سیاست

جس ملک میں وزیراعظم ہاؤس ہی محفوظ نہیں وہاں وزیراعظم کیسے محفوظ ہوسکتا ہے۔ نام تبدیل ہوتے رہتے ہیں کردار بدلتے ہیں ’’ادوار بدلتے ہیں مگر طریقہ کار وہی۔‘‘ کبھی آڈیو لیک کر دو تو کبھی ویڈیو۔ مقصد ’’سیاسی گند‘‘ کے سوا کیا ہے؟ لیک ہونے والی گفتگو شرم ناک ہو یا عبرت ناک، سوال یہ ہے کہ یہ سب کرنے والے کھل کر بتائیں آخر معاملہ کیا ہے کہیں اندر کی لڑائی تو باہر نہیں آرہی؟

یہ سلسلہ نیا نہیں یہ 90ء کی دہائی کی بات ہے ہمارے ایک دوست نے ایک آڈیو کیسٹ لاکر دی کہ یہ ’’بڑی خبر‘‘ ہے اور ایسی کئی کیسٹس موجود ہیں۔ گفتگو تھی جناب یونس حبیب مرحوم کی مختلف سیاست دانوں کے ساتھ ’’ووٹ کے بدلے نوٹ‘‘ کی۔ بعد میں وہ ملک کا سب سے بڑا ’’اسکینڈل‘‘ بنا اور مہران بینک یا اصغر خان کیس کے طور پر سامنے آیا۔ انجام کیا ہونا تھا پیسے دینے والے اور لینے والے دونوں بچ گئے۔

ابھی حال ہی میں آڈیو لیک ہونے سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان نے چکوال اور رحیم یار خان کےجلسوں میں نامعلوم ’’آڈیو کالز‘‘ کا ذکر بڑے غصہ میں کیا اور اپنے سپورٹرز سے کہا ’’اب کال پر تمہیں کوئی دھمکی دے تو تم بھی اُسے دھمکی دو‘‘۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی نامعلوم کال کرتا ہوگا تو وہ ریکارڈ بھی کرتا ہوگا۔ کب کون سی کال لیک ہو جائے کسے پتا۔ یہاں تو سیاست دان کیا ججز اور کھلاڑی بھی محفوظ نہیں ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس ملک قیوم کی مشہور زمانہ آڈیو آج بھی سیاسی بحث کا حصہ ہے پھر جج ارشد ملک کی ویڈیو اور خود کپتان کے دور میں سابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ویڈیو لیک نے خاصا ہنگامہ برپا کیا۔ جاوید صاحب کیا نیب کا ہی رُخ بدل گیا۔

آڈیو اور ویڈیو لیک کے کھیل نے پورے نظام پر سوالات اُٹھا دیئے ہیں۔ جب کوئی بھی محفوظ نہیں رہا تو ’’قومی سلامتی‘‘ کیسے محفوظ ہوگی۔ آخر کون کیا چاہتا ہے۔ کل تک ’’کالوں‘‘ پر غصہ کرنے والے خان اپنے لوگوں کو جوش دلا رہے تھے مگر وہ حالیہ دو آڈیو پرخوش ہوں گے جن میں ایک میں ایک سرکاری افسر وزیراعظم شہباز شریف سے مریم نواز کے دامادکے حوالے سے گفتگو کر رہا ہے تو دوسری میں کابینہ اراکین۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی کسر رہ جاتی ہے ریاست کی رٹ کے باضابطہ خاتمے کا اعلان کرنے میں۔ اب تو تحقیق بھی اس ملک میں ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ ’’کل‘‘ عمران خان کے حامیوں کی ہو یا مسلم لیگ (ن) کی، ویڈیو لیک ٹارگٹ سیاست، جمہوریت اور سیاست دان ہی ہیں سبق مگر نہیں سیکھنا۔

نوٹس لے کر کیا کریں گے وزیراعظم؟ کیا دھمکی کا جواب دینے کی ہمت کریں گے؟ سابق وزیرِاعظم پہلے ان پیغامات کو تو سمجھ لیں۔ چلیں خان یا کپتان تو اس فیلڈ میں پُرانا کھلاڑی نہیں شریف برادران اور زرداری صاحب 70،70 سال کی عمر میں نہیں سمجھیں گے تو کب سمجھیں گے۔

’’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘‘

اب ہمارے کراچی کے دوستوں کو ہی دیکھ لیں میری مراد متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) سے ہے۔ آج کل ’’کالوں‘‘ پر چل رہی ہے کل تک 2018ء میں پی ٹی آئی کو اپنی نشستیں دلوانے کا الزام تھا پھر پی ٹی آئی کے ساتھ ایک ’’کال‘‘ پر دوستی کرلی خان بھی خوش۔ پھر 2022ء میں کال آئی کہ پی ڈی ایم کی حمایت کرنی ہے تو وہاں چلے گئے اب پتا نہیں ’’کال‘‘ کب آتی ہے۔

اور تو اور یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ایک کال کرنے والے صاحب نے کہا ’’بھائی‘‘ کامران ٹیسوری بھائی کو رابطہ کمیٹی میں واپس لے لو تو واپس لے لیا۔ اراکین نے سوالات اُٹھائے تو کہا ٹھیک ہے گورنر بنا دیتے ہیں۔ اب اس پر بحث چل رہی ہے ہماری نسرین جلیل باجی تو آئوٹ ہوگئیں۔ سنا ہے اب کالوں والے ’’بھائیوں‘‘ کو ایک کرنے میں لگے ہیں بات بھائی پر رک گئی ہے۔ ایک اور کال کا بڑا تذکرہ چل رہا ہے پنجاب میں وزیراعلیٰ کی دوڑ کے درمیان۔ وہ بھی کیا ’’کال‘‘ تھی کہ چوہدری پرویز الٰہی زرداری ہاؤس سے مبارکباد وصول کرکے نکلے اُس وقت وہ پی ڈی ایم کے متفقہ اُمیدوار تھے۔ پھر اچانک ایک ’’کال‘‘ نے گاڑی کا رُخ بنی گالہ کی طرف موڑ دیا اور وہ پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ کپتان نے جس کی وجہ سے یہ کہا کہ جنرل مشرف کا ساتھ 2002ء میں چھوڑا کہ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے ساتھ میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں، آج اُسی کے سپرد پورا پنجاب کردیا۔ اب یہ پتا نہیں کہ اپنے پہلے بیان پر معذرت بھی کی یا نہیں کمال تو چوہدری صاحب کا ہے زرداری صاحب نے اُن کی جماعت کو ’’قاتل لیگ‘‘ کہا پھر کبھی ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا تو کبھی وزیراعلیٰ کے لئے نامزد اور کپتان نے بھی کیا کچھ نہیں کہا۔ واہ رے سیاست تیرے بدلتے رنگ۔

اب تو ’’کالوں‘‘ میں کچھ کمی آئی ہے ورنہ تو کال نہیں آتی تھی تو بہت سے اراکین اسمبلی خود فون کرلیتے تھے کہ ’’سر کئی دن ہوگئے آپ نے کال نہیں کی‘‘۔ ایک بار مسلم لیگ (ق) میں اور پی ٹی آئی میں ٹھن گئی۔ وزیراعظم اور ق لیگ کا ڈنر ایک دن، کچھ اراکین نے فون کرکے اجازت لی کس ڈنر میں جائیں۔

مجھے آج بھی اپنے مرحوم دوست سینیٹر حاصل بزنجو کا چیئرمین سینٹ کا الیکشن یاد ہے جب ایوان میں سینیٹر کھڑے ہوئے تو حاصل کے حق میں غالباً 64 تھے اور مخالفت میں اُس سے آدھے۔ مگر جب سیکریٹ بیلٹ ہوا تو وہ ہار گیا۔ ایک رات پہلے اُس نے مجھے فون کیا تو میں نے کہا ’’یار مبارک ہو تو چیئرمین بننے جارہا ہے‘‘۔ ہنس کر جواب دیا، ’’ابھی ووٹنگ کل ہونی ہے مگر کالیں آنا شروع ہوگئی ہیں سینیٹرز کو‘‘۔

اصغر خان کیس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔ اُس میں سب سے اہم سوال انہوں نے چیف جسٹس کو لکھے گئے ایک خط میں پوچھا تھا، ’’کیا ISI کا سیاسی سیل آج بھی موجود ہے۔ یہ سیل ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں اپنے مخالفین کے حوالے سے بنوایا تھا بعد میں یہ مستقل قائم رہا۔ اُس سوال کا جواب جمع ہونے میں کئی سال لگ گئے۔ جواب میں تھا اب بند کر دیا گیا ہے۔ تو پھر یہ آڈیو، ویڈیو، لیک کون کر رہا ہے اس کا جواب کون دے گا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :