پاکستان
Time 18 اکتوبر ، 2022

سیلاب سے متاثرہ خواتین میں مفت سینیٹری کٹس تقسیم کرنے کیلئے مہم چلانیوالا جوڑا

فوٹو: کلثوم جہاں
فوٹو: کلثوم جہاں

حالیہ سیلاب اور بارشوں نے ملک میں تباہی مچا دی ہے۔ پی ڈی ایم اے سندھ نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 20 جون سے 17 ستمبر تک مختلف حادثات میں 678 افراد جاں بحق اور 8 ہزار 422 زخمی ہوئے ہیں۔

وہ خواتین جن کے گھر خوفناک سیلاب کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئے انہیں امدادی کیمپو ں میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ سیلاب متاثرین کو امدادی پیکیجز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے لیکن اس امدادی سامان میں سینیٹری کٹس اور دیگر حفظان صحت کی مصنوعات شامل نہیں ہوتیں۔

قیامت کی اس گھڑی میں سیلاب سے متاثرہ خواتین کی مدد کرنےکے لیے کراچی میں مقیم، فری لانس صحافی کنول انیس نے اپنے شوہرانیس الدین کے ساتھ ایک مہم کا آغاز کیا جس کا نام 'ایام حیض' رکھا، جس کے تحت وہ اب تک 8 ہزار سے زائد سینیٹری پیک سیلاب سے متاثرہ خواتین کو پہنچا چکی ہیں۔ وہ نہ صرف ان اشیاکی فوری فراہمی کو ممکن بنا رہی ہیں بلکہ ان مصنوعات کے استعمال اور بعد از استعمال انہیں مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی بتاتی ہیں۔

اس مہم کا مقصد پاکستان میں سیلاب سے متاثر 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افرادجن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جس  میں سینیٹری پیڈ اور دیگر حفظان صحت کی مصنوعات تقسیم کرنا ہے۔

فوٹو: کلثوم جہاں
فوٹو: کلثوم جہاں

کنول انیس نے 6 اگست کو اپنے شوہر کے ساتھ امدادی سامان لےکر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ جانے کا فیصلہ کیا، انہوں نے امدادی سامان کے ساتھ کچھ سینیٹری پیڈ زبھی پیک کیے، وہاں پہنچ کرسیلاب سے متاثرہ خواتین کی حالت زار دیکھ کرسخت رنجیدہ ہوئیں پھر انہوں نے کچھ خواتین کو سنیٹیری پیڈ زبھی دیے۔

خواتین کی ماہواری اور حفظان صحت سے متعلق مسائل میں مدد کرنے کے لیے پرعزم، کنول ا نیس نےاپنے شوہرکو بتایا کہ میں کچھ کرنا چاہتی ہوں تو انہوں نے ان کی بھرپور حمایت کی۔

اس جوڑے نے اگست میں 'ایام حیض' کے نام سے مہم کا آغاز کیا۔ 'ایام حیض' مہم کے تحت ترجیحی بنیادوں پر سیلاب سے متاثرہ خواتین کو مخصوص ایام کے دوران صحت عامہ کی مصنوعات جن میں سینیٹری پیڈز، زیر جامہ ، صابن اور درد کش ادویات تقسیم کرنا ہے۔

کنول انیس، شوہر کے ساتھ 14 اگست کو صحت عامہ کی مصنوعات( 300 سینیٹری پیڈز، صابن،درد کش ادویات،نیپکن) لے کر دوبارہ لسبیلہ گئی ۔ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان میں حیض یا ماہواری کوممنوع موضوع سمجھا جاتاہے اور شہری علاقوں میں خواتین پیڈز جبکہ دیہی علاقوں میں کپڑا ستعمال کرتی ہیں لیکن شہری علاقوں پر بھی پیڈز خریدنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ عام دکانوں میں یہ دستیاب نہیں ہوتا اگر ہو بھی تو اس کو بہت چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ اگر خواتین پیڈز خریدنے بھی جائیں تو وہ عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور بھورے کاغذ کے تھیلے میں پیک کر کے دیتے ہیں۔

فوٹو: کلثوم جہاں
فوٹو: کلثوم جہاں

انہوں نے بتایا کہ خواتین اپنے مسائل بتانے میں ہچکچا رہی تھیں۔ مجھےایک نوجوان لڑکی نے اپنی تکلیف کے بارے میں بتانے کی کوشش کی لیکن اس کی ماں نے اسے روک دیا۔جب میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے اپنی بیٹی کو بات کرنے سے کیوں روکا، تو اس کی ماں نے کہا کہ وہ 'غیر شادی شدہ لڑکی ہےاور غیر شادی شدہ لڑکیاں اس طرح بات نہیں کرتیں۔

یہ جوڑ ابلوچستان (بیلا، لسبیلہ اور حب) سندھ میں کیٹی بندر، ماتلی ،دادو، سیہون، بدین، فریدآباد، ٹنڈو آدم ، ٹنڈو اللہ یار کے کیمپس کا دورہ کرچکا ہے۔

فوٹو: کلثوم جہاں
فوٹو: کلثوم جہاں

کنول نے اپنے شوہرا نیس الدین کی تعریف کرتے ہوئےکہا کہ 'اگر میرے شوہر میرا ساتھ نہ دیتے تو مجھے نہیں لگتا کہ میں وہ کر پاتی جو میں اب کر رہی ہوں۔

کنول اور انیس الدین سیلاب سے متاثرہ خواتین میں 8 ہزار سے زائد سینیٹری کٹس تقسیم کر چکے ہیں اور اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔ 

انیس الدین کا کہنا تھا ہے کہ جب ہم نے اس مہم کا آغاز کیا تو ان علاقوں کے مقامی افراد نے ڈرایا دھمکایا لیکن ہم نےنیک نیتی اور جذبے سے اپنا کام جاری رکھا۔ ہم نے ان کو بتایا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت اس مہم پر کام کر رہے ہیں ، ہم ذاتی طور پر سیلاب زدگان میں سینیٹری کٹس پیک کرتے اور تقسیم کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ این جی اوز نے ہم سے رابطہ تو کیا ہے لیکن انہوں نے مالی طور پر کوئی سپورٹ نہیں کیا۔ میں حکومت پاکستان اور دوسرے اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مہم میں ان کا ساتھ دیں، ان کو سکیورٹی فراہم کریں۔

ان کا خیال ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح پولیو مہم چلائی جاتی ہے اسی طرح گاؤں دیہات میں یہ پروڈکٹس مفت تقسیم کی جائیں کیونکہ متاثرین ان مصنوعات کو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔

مزید خبریں :