سینیٹری پیڈز: سیلاب سے متاثرہ خواتین کی بنیادی ضرورت مگر کوئی توجہ نہیں

سندھ کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی سیلاب سے متاثرہ خواتین کو جہاں زندگی گزارنے کیلئے بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے وہیں ماہواری کے سامان کا نہ ہونا بھی ان کیلئے کسی امتحان سے کم نہیں۔

خواتین کے مسائل اور باالخصوص مینسٹورل ہائجین پر کام کرنے والی کراچی کی ایک سماجی تنظیم نے بھی سیلاب سے متاثرہ ان خواتین کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہواری کٹس کی فراہمی کو یقینی بنانے کا عزم کیا ہے۔

جیو ڈیجیٹل نے اس مہم سے متعلق جاننے کیلئے نجی سماجی تنظیم کے مختلف نمائندگان سے رابطہ کیا جو کراچی کے علاقے اسکیم 33 میں سیلاب متاثرین کیلئے لگائے جانے والے ایک کیمپ میں یہ مہم چلا رہے ہیں۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ثنا شاہد نے بتایا کہ ان کی تنظیم کافی عرصے سے ایام حیض میں پیش آنے والی مشکلات سے متعلق مختلف کام کر رہی ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے ان کے رضاکاروں نے بتایا ہے کہ بہت سے کیمپس میں خواتین کو صابن، سینیٹری پیڈز اور دیگر سامان کی ضرورت ہے، بے گھر ہونے کے باعث ان خواتین کیلئے ماہواری کا سامان انتہائی ضروری اشیاء میں شامل ہے۔ ثنا کے مطابق ان کی تنطیم نے خواتین کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فنڈز جمع کرکے مینسٹورل کٹس کی تقسیم کا کام شروع کیا۔ مینسٹورل ہائجین کی اس ایک کٹ میں صابن، سینیٹری پیڈز اور دیگر سامان موجود ہے جسے اندرون سندھ اور بلوچستان کےمختلف شہروں سمیت کراچی کے مختلف کیمپس میں پہنچایا جارہا ہے۔

سماجی تنظیم کی کارکن سونھ رستمانی نے خواتین کی اس ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سچل گوٹھ کے ایک کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے انہیں کسی خاتون نے کہا کہ وہ ماہواری کے دنوں میں اپنے کپڑوں کو کاٹ کر استعمال کر رہی ہیں جو انتہائی میلے اور  ناقابل استعمال حالت میں ہیں۔ سونھ نے کہا کہ خاتون کی اس بات سے انہوں نے عزم کیا کہ وہ اپنی تنطیم کے ساتھ ان متاثرہ خواتین کو آگاہی دینے اور ماہواری سے متعلق سامان تقسیم کرنے پر کام کریں گی اور یوں یہ سلسلہ شروع ہوا۔

سماجی تنظیم کے نمائندگان کے مطابق ان کی تنظیم ماہواری کٹس میں موجود سامان دیگر این جی اووز اور فنڈ کے ذریعے اکھٹا کر رہی ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سیدہ کسا زہرہ نے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ ان کے پاس ورکنگ اسپیس کم ہے اس لیے سامان کی پیکنگ کا کام نمائندگان اپنے گھروں میں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تنطیم نے 3 لاکھ ماہواری کٹس کی تقسیم کا ٹارگٹ رکھا تھا جو کہ اب پورا ہوچکا ہے جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور کیمپس میں کام کرنے والی دیگر این جی اووز کے ذریعے یہ معلوم کرکے کہ ماہواری کے سامان کی ضرورت کس جگہ زیادہ ہے، مزید کٹس بھی پہنچائی جارہی ہیں۔

سیدہ کسا نے کہا کہ اگر کوئی ماہواری کا سامان ڈونیٹ کرنا چاہتا ہے تو کسی ایسی سماجی تنطیم سے رابطہ کرے جو اس خصوصی مسئلے پر کام کر رہی ہو کیونکہ ان کو حالات کی نوعیت کا پتہ ہے کہ کس جگہ کس چیز کی ضرورت زیادہ ہے۔

کراچی کے علاقے اسکیم 33 میں واقع ایک گورنمنٹ اسکول کو سیلاب متاثرین کے کیمپ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جہاں 200 کے قریب خواتین موجود ہیں۔ ڈسٹرکٹ ایسٹ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر امیمہ کے مطابق اس ضلعے میں 17 کیمپس لگائے گئے ہیں جس کی نگرانی ڈپٹی کمشنر آفس کے تحت کی جارہی ہے۔

جیو ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے امیمہ نے بتایا کہ ان کیمپس میں موجود خواتین کو ہر چیز کے ساتھ ماہواری کے سامان کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود بھی سوشل میڈیا پر دیکھ رہی ہیں کہ بہت سی خواتین ماہواری کا سامان ڈونیٹ کر رہی ہیں جو کہ ایک اچھی بات ہے لیکن ہمیں اس حوالے سے سیلاب سے متاثرہ خواتین کے ساتھ تعاون کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ اپنی اس ضرورت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتی ہیں۔

جب اس کیمپ میں موجود ایک سیلاب متاثرہ خاتون سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں پہلے دن سے ماہواری کے سامان کی ضرورت تھی لیکن جب کوئی اس حوالے سے پوچھتا تو ہی وہ بتانے کا ارادہ کرتیں ورنہ شرم کی وجہ سے کچھ نہ کہتی تھیں البتہ نجی سماجی تنظیم کی جانب سے فراہم کیے گئے ماہواری کے سامان نے اب ان کی مشکل کو کسی حد تک کم کردیا ہے لیکن اس حوالے سے مزید ڈونیشن کی ضرورت ہے۔

مزید خبریں :