20 اکتوبر ، 2022
کوئٹہ میں آٹے اور پھلوں سمیت اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں دکانداروں اور بیوپاریوں کی جانب سے کئے جانے والے من مانے اضافوں کے باعث سبزیاں، پھل گوشت اور دیگر اشیاء ضروریا عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں جب کے متوسط طبقے کے خریدار بھی پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں۔
کوئٹہ میں پرائس کنٹرول کمیٹی کے غیر فعال ہونے کے باعث مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا، گوشت، آٹے اور پھلوں کے بعد سبزیوں کی قیمتیں بھی عام انسان کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، شہر کے مختلف علاقوں میں دوکاندار اپنی من مانی قیمتوں پر سبزیاں فروخت کررہے ہیں۔
کوئٹہ کی بازاروں میں بھنڈی 200 روپے کلو، آلو 100 روپے کلو ، لہسن اور ادرک 400 روپے کلو تک جاپہنچی ہیں جبکہ روٹی کے ساتھ کھانے کیلئے اب مزدور کیلئے پیاز بھی میسر نہیں کیونکہ اسکی قیمت بھی 100 روپے کلو ہوگئی ہے۔
ٹماٹر کی قیمت 200 روپے ہوگئی ہے، سبز مرچیں جو 2 ماہ پہلے 80 روپے میں فروخت ہو رہی تھی وہی اب مہنگی ہو کر 400 روپے کلو ہوگئی ہے۔
خریداروں کا کہنا ہے کہ ہم اتنے دنوں سے یہاں سے مہنگے داموں سبزی لے کر گئے ہیں لیکن ہم نے یہاں کہیں نہیں دیکھا کہ بلدیہ کا کوئی نمائندہ یا کوئی ذمہ دار آفیسر آیا ہو جس نے یہاں پر انکو کہا ہو کہ پرائس لسٹ کے حساب سے بیچیں۔
دوکانداروں کا کہنا ہے کہ انہیں سبزیاں زمینداروں سے مہنگی مل رہی ہیں، ہم لوگ تو مجبور ہیں اگر ادھر سے سستا آجائے ہم لوگ بھی سستہ دیتا ہے وہاں سے سستہ نہیں آتا۔
کوئٹہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ حکومت کی طرف سے جو چیکنگ کیلئے آتے تھے دیکھتے تھے کوئی کیسے دے رہا ہے کس چیز کا کیا ریٹ ہے ابھی کوئی ریٹ نہیں ہے جس کا جو دل چاہے وہ اسی ریٹ پر دے رہا ہوتا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف جب مٹن، بیف اور مرغی کے گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں تو حکومت کو سبزیوں کے نرخ کنٹرول کرنے کیلئے پرائس کمیٹیوں کو فعال کرنا چاہیے تاکہ عام طبقے کے لوگ بھی دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔