23 اکتوبر ، 2022
برطانیہ میں اقتصادی اور سیاسی بھونچال نے ایک اور وزیراعظم کو گھرجانے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ لز ٹرس جو ایک روز پہلے تک خود کو فائٹر کہہ کر استعفیٰ دینے سے گریز کر رہی تھیں بالآخر انہوں نے اپنی غلطیاں تسلیم کرلیں اور عہدہ چھوڑنے ہی میں عافیت جانی۔
برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں وہ پہلی وزیراعظم ہیں جو محض 45 روز برسراقتدار رہنے کے بعد اس اقدام پر مجبور کردی گئی ہیں۔ ان پر بدنامی کا ایک داغ یہ بھی لگا کہ وہ ملک کے غیر مقبول ترین وزراء اعظم میں سرفہرست بنیں۔ لزٹرس کی جان تو چھوٹ گئی مگر سوال یہ ہے کہ ان کے جانے سے سیاسی اور اقتصادی بحران ختم ہوگا یا نہیں؟
برطانیہ میں عام انتخابات کا اعلان حکمراں جماعت کرتی ہے، چار ماہ میں دو وزراعظم بدلنے پر مجبور کنزریٹوز کیلئے قبل ازوقت انتخابات کا فیصلہ انتہائی گھاٹے کا سودا ہے، اس کی کوشش ہے کہ اپنے کسی اور لیڈر کو وزیراعظم منتخب کرائے تاکہ بقیہ مدت پوری کرے مگر اس بات کے آثار کم ہیں کہ نیا ٹوری لیڈر گرتی معیشت سنبھال سکے گا۔اقتدار کے پانچ برس مکمل کرنے کی صورت میں خدشہ یہ ہے کہ کہیں ٹوری پارٹی ہی کا شیرازہ نہ بکھر جائے۔ یعنی کنزریٹوز کو مشکل یہ درپیش ہےکہ حکومت بچائیں یا پارٹی۔
ٹوریز کے برعکس حزب اختلاف کی مرکزی جماعت لیبرپارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس دونوں ہی قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔دونوں جماعتوں کے نزدیک ٹوریز اس ہمپٹی ڈمپٹی کی مانند ہے جو گر کر بکھر چکا اور سب مل کر بھی اسے اصل حالت میں واپس نہیں لاسکتے۔ لیبر لیڈر سرکئیر اسٹارمر اس لیے بھی الیکشن پر زور دے رہے ہیں کیونکہ سروے واضح کرچکے ہیں کہ ان کی جماعت کو باآسانی سادہ اکثریت حاصل ہوجائے گی لیکن کیا اس لیبرپارٹی کے پاس مسئلے کاحل ہے جو عوام دوست بجٹ تو بناتی ہے مگر ملک پر قرضوں کا ہمالیہ کھڑا کرنے کا الزام سہتی ہے؟
اس میں شک نہیں کہ یورپی یونین سے نکلنے یعنی بریگزٹ کے بعد ہی سے برطانیہ غیر معمولی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے۔ دنیا کی اس پانچویں بڑی معیشت نے خدا خدا کرکے کورونا وبا جھیلی تھی مگر روس یوکرین جنگ سے پیدا اقتصادی مسائل نے برطانیہ کو معاشی طورپر ہلا کر رکھ دیا ہے۔جس ملک میں گھر،گاڑی اور دیگر قیمتی سامان خریدنے کیلئے بینکوں سے رقم قرض لینے کا کلچر ہو، وہاں دسمبر سے اب تک شرح سود سات بار بڑھائی جا چکی ہے۔کئیر اسٹارمر کے بقول ہر شخص مارگیج کی مد میں اضافی پانچ سو پاؤنڈ خرچ کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔
نوبت یہ آئی ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ جو پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کی اقتصادی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتاہے اور اصلاحات کیلئے ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہے، اس نے ٹیکس کٹوتیوں کی پالیسی پر برطانیہ کی حکومت کو بھی نہیں بخشا۔
آخر اسٹاک مارکیٹ سنبھلنے کا نام نہ لے رہی ہو اور برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار پاؤنڈ کی قدر ڈالر سے بھی نیچے جا گری ہو تو ٹیکس کٹوتیوں پر سب اچھا ہے کیسے کہہ دیا جائے؟
برطانیہ میں نچلے طبقے کی حالت یہ ہے کہ سردیاں شروع ہوگئیں مگر ٹھٹھرتے لوگ اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹر تک نہیں چلا پا رہے۔ انرجی بل دوگنا بڑھنے کے سبب لوگوں کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں کہ وہ گاڑی میں مہنگا پیٹرول ڈلوائیں، بجلی کا بل بھریں کھانے پینے کی بنیادی اشیا خریدیں یا ہیٹر چلا کر گھر گرم کریں؟
برطانیہ کے سیاسی بحران کا حل نکالنے کے لیے پہلے اقتصادی بحران کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سردیاں آرہی ہیں اور توانائی کی مانگ میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ روس یوکرین جنگ ختم ہونے کے آثار نہیں، اس لیے توانائی کا بحران بھی ختم نہیں ہوسکے گا،یعنی اقتصادی مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔
یوکرین جنگ کو بڑھاوا دینے سے پہلے برطانیہ ہی نہیں یورپی ممالک کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ان کے پاس اپنی عوام کو دینے کے لیے میٹھی گولی ہے یا نہیں۔
معاشی مسائل روس میں بھی بڑھ رہے ہیں مگر اس کے نتیجے میں پیوٹن کی حکومت الٹنے کا سوچنا دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں ہٹانے سے متعلق اپوزیشن کی کوششیں ناکام ہوچکیں،سقوط کیف یعنی یوکرین کے چار حصوں کے روس میں انضمام نے انہیں مغرب کے خلاف ٹھوس طاقت کی صورت میں بھی ابھارا ہے۔ یہ سب نہ بھی ہوتا تو پیوٹن پہلے ہی آئینی ترامیم کے ذریعے سن 2036 تک اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرچکے ہیں۔
برطانیہ تو بھگت چکا،سوال یہ بھی ہے کہ اس یوکرین جنگ کے امریکا میں 8 نومبر کو ہونے والے مڈٹرم الیکشنز پر کیا اثرات ہوں گے؟ مہنگائی کا جن امریکا پر بھی اسی طرح مسلط ہے جیسے وہ برطانیہ کو دہشت ذدہ کیے ہوئے ہے۔ امریکی عوام جب پیٹرول پمپ پرجاتے ہیں یا اسٹور سے مہنگا سودا سلف لیتےہیں تو صدر بائیڈن کو یاد کیے بنا نہیں رہتے۔
مڈٹرم الیکشنز میں اگرایوان ڈیمو کریٹس کے ہاتھ سے گیا یا سینیٹ، اس کے پس منظر میں بھی یوکرین جنگ ہی ہوگی۔ لیز ٹرس تو اس وقت تک گھر جاچکی ہوں گی، جوبائیڈن ہوشیار باش!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔