31 اکتوبر ، 2022
جہاں سچ کہنے والے ہار جائیں اور جھوٹ بولنے والے آپ کا منہ بند کرا دیں وہاں ٹوٹ پھوٹ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ جغرافیے ہی بدل جایا کرتے ہیں۔ یاد رکھیے! سچ کہنے والے ہار کر بھی جیت جاتے ہیں اور جھوٹ بولنے والے جیت کر بھی ہار جاتے ہیں۔
آج پاکستانی قوم سچ اور جھوٹ کی لڑائی میں حیران وپریشان نظر آتی ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی کا سچ کہنا اور سننا چاہتا ہے لیکن آخری فتح اس سچ کی ہونی ہے جو بہت تلخ ہے۔ آج آپ کو اپنے ارد گرد جو افراتفری اور بے یقینی نظر آ رہی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاست کے اکثر کھلاڑی پورا سچ نہیں بول رہے۔ آج کے پاکستان میں پورا سچ سامنے لانا بہت مشکل ہے۔ کہیں کسی کی سیاسی مجبوریاں آڑے آ جاتی ہیں اور کہیں ارشد شریف کا انجام سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک ماہ قبل عمران خان نے ایک کاروباری شخصیت کو ان کے پاس بھیجا اور کہا کہ دو معاملات پر مذاکرات کر لیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپس میں صلاح مشورے سے نئے آرمی چیف کا تقرر کرلیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ نئے انتخابات کی تاریخ پر بات کر لیتے ہیں۔ شہباز شریف نے ان دونوں معاملات پر بات چیت سے انکار کردیا تاہم پیشکش کی کہ آیئے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پر بات کرلیتے ہیں اور یوں بات آگے نہ بڑھ سکی۔
شہباز شریف نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے پانچ ماہ قبل تحریک انصاف سے مذاکرات کے نتیجے میں قومی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن پھر اچانک اس فیصلے سے بیک آئوٹ کیوں کر گئے؟ جی ہاں! مجھے شہباز شریف اور عمران خان کی تردید کی کوئی پروا نہیں۔ آج کل یہ دونوں ایک دوسرے کو چور اور لٹیرا قرار دے رہے ہیں لیکن مئی کے تیسرے ہفتے میں بیک چینل سے ان کے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئے تھے۔ یہ بھی مت بھولئے کہ اس سے پہلے عمران خان نے ایک کاروباری شخصیت کے ذریعہ آصف زرداری سے بھی رابطہ کیا اور ان کو توڑنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کاروباری شخصیت سے سوری کہہ دیا جس کے بعد عمران خان نے طاقتور حلقوں کے ذریعہ مسلم لیگ (ن) سے مذاکرات شروع کئے۔
مسلم لیگ (ن) کے لئے سب سے بڑی مشکل اس کے اتحادی تھے۔ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) سمیت دیگر اتحادی نئے انتخابات پر راضی نہ تھے لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی توڑنے پر راضی ہوگئی۔ انہی دنوں آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی جاری تھے لہٰذا ان مذاکرات کی وجہ سے قومی اسمبلی توڑنے کے اعلان میں چند دنوں کی تاخیر ہوگئی لیکن جس دن نئے انتخابات کا اعلان ہونا تھا اس دن عمران خان نے 25 مئی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔
خان صاحب کا خیال تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ان کے لانگ مارچ کی دھمکی کا نتیجہ سمجھا جائے گا اور انہیں بہت سیاسی فائدہ ہوگا۔ لانگ مارچ کے اعلان کے بعد شہباز شریف نے قومی اسمبلی توڑنے سے انکار کر دیا اور عمران خان کے لانگ مارچ کو بے تحاشہ طاقت کے استعمال سے ناکام بنا دیا۔ اس ناکامی کے بعد عمران خان ایک ’’اینگری مین‘‘ بن گئے اور انہوں نے فوجی قیادت کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دینا شروع کردی کیونکہ میر سید جعفر علی خان نجفی دراصل نواب سراج الدولہ کے آرمی چیف تھے جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ ملی بھگت سے اپنی ہی فوج کو شکست سے دو چار کیا تھا۔
خان صاحب دن کے وقت جلسوں میں آرمی چیف کو میر جعفر کہتے اور رات کی تاریکی میں ان سے ملاقاتوں کی کوشش کرتے۔ جس وزیر اعظم کو ’’چیری بلاسم‘‘ قرار دیتے اس کے پاس پیامبر بھیجنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اتنے مقبول ہو چکے ہیں کہ کوئی ریاستی ادارہ ان کے سامنے ناں کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا لیکن یہ بھول گئے کہ ان کے ارد گرد وزارت عظمیٰ کے کم از کم تین امیدوار موجود ہیں جو اندر ہی اندر ان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چھوٹی سی جھلکی پیش ہے۔
فروری 2021ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سےملے اور انہیں خبردار کیا کہ آپ کی پارٹی کے اندر گڑبڑ شروع ہو چکی ہے لہٰذا آپ اپنے ایم این اے صاحبان کی ناراضیاں دور کریں۔ اگر آرمی چیف کی نیت میں فتور ہوتا تو وہ عمران خان کو خبر دار کیوں کرتے؟ یہ وہ دن تھے جب عمران خان کی کابینہ کے ارکان حیلے بہانوں سے آرمی چیف سے ملنے جاتے اور اپنے وزیر اعظم کی شکایتیں کرتے۔
ایک دن سات وزراء وفد بنا کر جنرل باجوہ کے پاس گئے اور اپنے وزیر اعظم کی شکایتیں کیں۔ جنرل باجوہ نے ان وزراء حضرات سے کہا کہ آپ یہ سب باتیں وزیر اعظم کے سامنے خود کیوں نہیں کرتے؟ وزراء صاحبان نے کہا کہ خان صاحب ہماری کوئی بات نہیں سنتے۔ یہ سن کر جنرل باجوہ نے ان وزراء سے کہا کہ آئو پھر ہم سب مل کر روتے ہیں۔ اس کے بعد معاملات دن بدن بگڑتےچلے گئے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کے ٹرانسفر کے مسئلے پر عمران خان نے جنرل باجوہ کو اتنا زچ کردیا کہ ایک دن جنرل صاحب نے اپنا عہدہ خود ہی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور وزیر اعظم کو اطلاع بھی دے دی۔ وزیر اعظم کو پتہ چلا تو انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ کے ٹرانسفر کا نوٹیفیکیشن کروا دیا لیکن اس کے بعد انہوں نےآرمی چیف اور آئی ایس آئی کے نئے سربراہ سے تقاضا کیا کہ اپوزیشن کی اہم شخصیات کو جیلوں میں ڈالا جائے۔
اس غیر آئینی مطالبے سے انکار پر خان صاحب نے اپریل 2022ء میں نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کرلیا۔ تحریک انصاف کے ناراض ارکان کے ذریعہ یہ خبر فروری 2022ء میں آصف زرداری اور شہباز شریف تک پہنچی اور یوں عدم اعتماد کا کھیل شروع ہوا۔ اس کھیل کو ناکام بنانے کے لئے خان صاحب نے غیر ملکی سازش کا بیانیہ تراشا جسے ان کے سیاسی مخالفین کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے عوامی پذیرائی ملی لیکن اب حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ ابھی صرف دس فیصد سچائی سامنے آئی ہے۔
اگر پچاس فیصد سچائی سامنے آگئی تو عمران خان، شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت اکثر بڑے بڑے سیاستدان مشکل میں پڑ جائینگے۔عمران خان نے نئے انتخابات کی تاریخ کیلئے ایک نیا لانگ مارچ شروع کر رکھا ہے۔ نئے انتخابات جب بھی ہوئے ان میں عمران خان کا حصہ لینا بہت مشکل ہوگا کیونکہ ان پر کئی نئے مقدمات بن رہے ہیں۔ خان صاحب کی پارٹی میں موجود وزارت عظمیٰ کے امیدوار اپنے آپ کو بہت چالاک سمجھتے ہیں۔ پورا سچ سامنے آگیا تو کسی کی چالاکی کام نہ آئے گی۔ یہ چالاک لوگ ڈریں اس وقت سے جب وہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ مل کر روئیں گے لیکن اس وقت پاکستانی قوم مسکرا رہی ہوگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔