بلاگ
Time 06 نومبر ، 2022

افواجِ پاکستان اور صبر کی اہمیت

جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس حال میں فوج کی کمال سنبھالی تھی کہ جنرل مشرف کے آٹھ سالہ اقتدار کی وجہ سے فوج پوری طرح سیاست میں ملوث، چنانچہ طعنوں کا نشانہ بن چکی تھی۔ کمان سنبھالتے ہی جنرل پرویز مشرف کی یہ فرمائش مسترد کی کہ 2008ء کے الیکشن میں فوج قاف لیگ کی مدد کرے۔ جنرل مشرف اتنے مشتعل ہوئے کہ انہیں ’’حوالدار کا پتر ‘‘ قرار دیا ۔سپہ سالار خاموش رہا۔

ان دنوں قوم یہ سمجھتی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکی ہے۔ یہ پاک فوج کی نا مقبولیت کا سب سے بڑا سبب تھا۔یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ تین سال مکمل ہونے پر جنرل کیانی کو جب ایکسٹینشن کی پیشکش کی گئی تو اوّل انہوں نے انکار کردیا۔ بعد ازاں میرے والد ہارون الرشید اور پروفیسر احمد رفیق اختر نے توسیع قبول کرنے پہ قائل کیا۔ انہی دنوں ایک میوزیکل بینڈ نے ایک گانا ریلیز کیا۔ ان لڑکوں نے اپنے بینڈ کا نام خود ہی طنزاً ’’بے غیرت بریگیڈ ‘‘ رکھا ہوا تھا۔ اس گیت کے ایک بول کا مفہوم یہ تھا : چونکہ اب ایکسٹینشن کا مسئلہ آن پڑا ہے؛ چنانچہ چیف کی بولتی بھی بند ہے۔ تجزیہ کار نصرت جاوید نے ان لڑکوں کو اپنے پروگرام ’’بولتا پاکستان ‘‘ میں مدعو کیا۔ خوشی سے لڑکوں نے بتایا کہ فوج نے انہیں کچھ بھی نہیں کہا۔ جنرل کیانی بزدل نہیں تھے۔ 2012ء میں سلالہ چوکی پر امریکی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد زرداری حکومت نہیں بلکہ سپہ سالار نے ہی نیٹو سپلائی بند کرنے کا حکم صادر کیا تھا ۔

وکی لیکس سامنے آئیں تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ امریکی سفیر سے پاکستانی لیڈروں کی گفتگو میں سے یوسف رضا گیلانی کا ایک جملہ یہ تھا کہ آپ ڈرون حملے کرتے رہیے، ہم دکھاوے کا احتجاج کرتے رہیں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے امریکی سفیر سے یہ درخواست کی تھی کہ کبھی ہمیں بھی بنائیے نا وزیرِاعظم۔ وکی لیکس کے مطابق جنرل کیانی نے بھی اسفند یار ولی کے بارے میں امریکی سفیر کو ایک غیر محتاط جملہ کہا تھا۔ اس پر میرے والد نے دوستی کو ایک طرف رکھا اور ایک کالم لکھا ، جس کا عنوان تھا : جنرل کیانی یو ٹو؟

اندازہ کیا جا سکتاہے کہ حساس شخص کو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی ۔ اندازہ کیا جا سکتاہے کہ کور کمانڈرز سمیت فوجی افسران نے والد صاحب کے اس کالم پر کیسا ردّعمل ظاہر کیا ہوگا۔ جنرل کیانی نے میرے والد کو ملاقات کے لیے مدعو کیا اور وضاحت کی کہ امریکی سفیر کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ والد صاحب نے دو اشعار ان کی نذر کئے

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

اور

زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل

یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے

دوستی کتنی ہی گہری تھی مگر میرے والد ایک اخبار نویس تھے اور جنرل لاکھوں مسلح افراد کے چیف۔ وکی لیکس میں ان کا غیر محتاط جملہ تھا بھی ایک غلط فہمی کہ اسفند یار ولی کی سرپرستی جنرل کیانی بھلا کیوں کرتے۔ جنرل نے مگر صبر کا تہیہ کیے رکھا۔

جنرل مشرف اور قاف لیگ جنرل کیانی سے نفرت کرتے تھے کہ2008ء کے الیکشن میں ان کی مدد نہ کی ؛چنانچہ قصہ تمام ہو ا۔ پیپلزپارٹی انہیں جنرل مشرف کا دستِ راست سمجھتی تھی۔جنرل مشرف کے اقتدار اور افغان جنگ کی وجہ سے فوج کو گالی دینا ایک فیشن بن گیا تھا ۔ کچھ لوگ این آر او کے معاملات طے کرانے کے نتیجے میں جنرل کیانی کو دوش دیا کرتے تھے ؛حالانکہ اپنے آرمی چیف جنرل مشرف کے احکامات پر عمل نہ کرنے کا کوئی اختیار ماتحت جنرل کے پاس تھا ہی نہیں ۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف سمیت اکثریت انہیں مشرف کا آدمی سمجھ کر ان سے نفرت کرتی رہی ۔ امریکی بھی افغان جنگ ہارنے کی ذمہ داری پاک فوج پہ ڈالنا چاہتے تھے۔

جنرل کیانی نے کمان سنبھالی تو تین بڑے مسئلے درپیش تھے۔ قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے فوج کے خلاف ہو چکی تھی ؛حالانکہ ملا عمر اور اسامہ بن لادن امریکہ جتنے ہی قصور وار تھے۔ دوم امریکی جنگ ہارنے کی وجہ سے افواجِ پاکستان سے ناراض تھے۔ سلالہ پر اسی لیے حملہ کیا گیا ۔ بند کمروں میں ہلیری کلنٹن اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سمیت چار امریکی بڑوں سے جنرل کی اس درجہ تلخ کلامی ہوتی کہ فریق بعض اوقات حلق کے بل چلانے لگتے۔ جنرل نے امریکیوں کو باور کرا کے چھوڑا کہ افغان جنگ میں شکست ان کی اپنی ناکام حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے ؛حالانکہ امریکی پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ سوم پاکستانی عوام جنرل مشرف کے اقتدار کی وجہ سے افواج کے سخت خلاف ہو چکے تھے۔ اس دور میں رئوف کلاسرہ سمیت بے شمار صحافیوں نے سپہ سالار کو بے دریغ سنائیں۔ وہ سنتے رہے، سنتے ہی رہے۔ ان کی سبکدوشی کے بعد مسلسل اور متواتر ایک جھوٹ بولا گیا کہ آسٹریلیا میں ایک جزیرہ انہوں نے خرید رکھا ہے۔ وہ آج تک صبر کر رہے ہیں۔

جنرل کیانی کے صبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف چھ برس میں افواجِ پاکستان دوبارہ مقبول ہو گئیں ۔

صبر سے کام لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ آدمی خواہ کتنا ہی طاقتور ہو، اپنے خونی رشتے داروں کے طعنوں پہ صبر ہی کرنا پڑتا ہے ۔ پاکستان کے عوام افواجِ پاکستان کے خونی رشتے دار ہیں۔ افواجِ پاکستان کو صبر کرنا اور سوچنا ہوگا کہ چند برس قبل تو فوج کی حمایت ایک فیشن تھی۔ پھر یکایک کیا ماجرا ہوا؟ عسکری قیادت کو چاہئے کہ اس دانا آدمی سے مشورہ کریں، صرف چھ سال میں جس نے طعنوں کی ہدف افواجِ پاکستان کو قوم کی آنکھوں کا تارا بنا ڈالا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔