بلاگ
Time 13 نومبر ، 2022

جناب عمران خان سے کچھ سوالات

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے گفتگو اوران کے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ آج تو کرکٹ کا فائنل بھی ہے۔ اپنے سابق آقائوں سے مقابلے کا دن۔ تاریخ نے گوروں کو اپنے ہی ملک میں 10ڈائوننگ اسٹریٹ سے باہر کردیا ہے۔

یہ ان کی کھلی جمہوریت کی شہادت بھی ہے کہ وہاں رنگ نسل مذہب اور مسلک بڑے عہدوں تک رسائی میں حائل نہیں ہوتے اور یہ بھی کہ وہاں ماحول اور آب و ہوا ایسی ہے کہ تارکینِ وطن بھی مرکزی دھارے میںمتحرک ہوسکتے ہیں۔ وہاں کوئی متوازی حکومت نہیں ہے، جس کی حکومت ہے اسی کا اختیار ہے۔ وہاں بلدیاتی ادارے بھی بہت مضبوط ہیں۔ انشاء اللہ۔ آسٹریلیا سے بھی اچھی خبر ہی آئے گی۔

22 کروڑ کی عظیم مملکت اس وقت تاریخ کے بد ترین خلفشار سے گزر رہی ہے۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن۔ اپنی بات خود ہی کاٹ رہا ہوں ۔ دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے پاس اپوزیشن ہے ہی نہیں۔ ہر قومی سیاسی پارٹی کہیں نہ کہیں حکمران ہے۔ جلسے جلوس۔ پریس کانفرنس۔ سوشل میڈیا۔ بد زبانی اپنے عروج پر ہے۔ اخلاقیات کے جنازے اٹھ چکے ہیں۔ جاگیردارانہ۔ قبائلی طرزِ معاشرت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ سنجیدگی ۔ تدبر۔ معاملہ فہمی بزدلی سمجھے جارہے ہیں۔

میں آج ایک ووٹر کی حیثیت سے سخت اُلجھن میں ہوں۔ عمران خان کی مقبولیت اور مظلومیت میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ میری دلی دُعا ہے کہ قادرِمطلق عمران خان سمیت تمام مخلص اور سچے پاکستانیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ میں 1970 سے ووٹ دیتا آرہا ہوں۔ اپنے اہل خانہ۔ دوستوں کے حلقوں میں کھل کر مشورے ہوتے ہیں کہ کس پارٹی کو اپنا قیمتی ووٹ دیا جائے۔ ہم سب مل کر اس پارٹی کا انتخابی منشور کا جائزہ لیتے ہیں۔

ملکی اور قومی مسائل کے حوالے سے ان کی ترجیحات دیکھتے ہیں۔ وہ پارٹی اگر پہلے حکومت میں رہ چکی ہے تو اس کی کارکردگی کیا تھی؟ بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ پارٹی کا پروگرام تو اچھا ہے لیکن میرے حلقے کا امیدوار اس فلسفے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لئےووٹ پارٹی کی بجائے امیدوار کو دینا پڑتا ہے۔

پارلیمانی نظام میں روایت یہ ہے اور ضرورت بھی کہ ہر سیاسی پارٹی اپنے اندر بھی جمہوری ماحول پیدا کرے۔ کارکنوں کو فیصلے کا موقع دیا جائے۔ پارٹی کے ضلعی۔ صوبائی۔ قومی کنونشن ہوں۔ پارٹی کے سربراہ سمیت تمام عہدوں کے لئے باقاعدہ انتخاب ہوں تاکہ کارکن محسوس کریں کہ انہیں فیصلہ سازی میں شرکت کا موقع دیا جاتا ہے۔ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ صرف جماعتِ اسلامی یہ اہتمام کرتی ہے ۔ ہر سیاسی پارٹی میں فیصلے اجتماعی مشاورت سے نہیں۔ شخصی فرامین پر ہوتے ہیں۔ ہم ملک میں آمریت کے خلاف ہیں۔ لیکن پارٹیوں میں بہت سخت آمریت غالب ہے۔ ہم نے الیکشن ملتوی ہوتے دیکھے۔ دھاندلی ہوتی مشاہدہ کی۔ 1964 میں صدارتی انتخابات کے بعد حبیب جالبؔ نے کہا تھا:

دھاندلی دھونس دھن سے جیت گیا

ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا

پھر الیکشن کے مناظر اور رات گئے نتائج میں زمین آسمان کا فرق بھی دیکھا۔ 1988 کے بعد الیکشن بھی بہت ہوئے۔ اور بیلٹ بکسوں سے ووٹ بھی بہت نکلے۔ یہ تو تاریخ ہے۔ ہمارا مقدر ہے۔ مگر اب جو شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک پر نظر آرہا ہے، جہاں تاریخ نے گھوڑوں کی ٹاپیں سنی ہیں اب وہاں خاک نشینوں کے قدموں کی دھمک سماعت میں آرہی ہے۔

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

پرانی سیاست گری خوار ہے

اب مجھے ووٹ دینے کی تیاری کرنا ہے۔ اپنے بچوں سے دوستوں سے تبادلۂ خیال کرنا ہے۔ میں نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں بڑے بڑے جلسے دیکھے ہیں۔ اب بھی میرا موبائل۔ ٹی وی چینل۔ لوگوں کے امڈتے طوفان دکھارہے ہیں۔ میں تو پاکستان کو تاریخ کے خطرناک موڑ پر دیکھ رہا ہوں ۔ 

ملک کو جلد از جلد ایسی باضابطہ منتخب حکومت کی ضرورت ہے جو ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ کرکے معیشت کو مستحکم کرسکے۔ پاکستانی روپے کو وقعت دلواسکے۔ اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرواسکے۔ چھوٹی بڑی عدالتوں سے کسی رنگ نسل مسلک مذہب کے امتیاز کے بغیر انصاف دلاسکے۔

اس وقت چونکہ صرف ایک سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف جلد از جلد شفاف اور آزادانہ الیکشن کو ہی بحران سے نجات کا راستہ قرا دے رہی ہے، اس لئے میں اس پارٹی کے سربراہ سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ کنٹینر سے یا وڈیو لنک سے خطاب یقینا پُر جوش حامیوں کو ولولۂ تازہ دیتا ہے لیکن مجھ جیسے لاکھوں پاکستانی اپنے مستقبل کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔

 75 سال میں جتنی بے وفائیاں ہوئی ہیں۔ دھوکے دئیے گئے ہیں۔ ان کے پیش نظر میری یہ خواہش ہے کہ پی ٹی آئی اپنے جلسے جلوس کرتی رہے۔ لیکن ایک مبسوط پروگرام بھی پیش کرے کہ

 1۔ ملک کی معیشت کو کیسے مستحکم کیا جائے گا۔ کونسی اکنامک پالیسی اختیار کی جائے گی۔

2۔ پاکستان کے ازلی دشمن انڈیا سے تعلقات کس نہج پر ہوں گے۔

3۔ امریکہ پالیسی کیا ہوگی۔

4۔ مسلم دنیا سے کس نوعیت کے تعلقات ہوں گے۔افغانستان کیلئے کیسی حکمت عملی ہوگی۔

5۔ مذہبی شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ مسلمانوں میں ہم آہنگی کیلئے کیا ٹھوس اقدامات ہونگے۔ 

6۔ اقلیتوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں ہورہا ۔یہ لائحہ عمل بھی بتائیں۔

7۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے صرف زبانی جمع خرچ ہوگا یا کوئی منظّم قوانین ہوں گے۔

8۔ بلوچستان کے عام آدمی کے احساس محرومی کے خاتمے کیلئےکیا پروگرام ہے۔

 9۔ جاگیرداری۔ سرداری کیا اسی طرح معاشرے پر غالب رہے گی۔

 10۔ زراعت میں فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے کیا طریقے اختیار ہوں گے۔

 11۔ جدید ٹیکنالوجی سے ملک کے مسائل کیسے حل کئے جائیں گے۔

12۔ 22کروڑ میں سے چھ کروڑ کے قریب غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ انہیں کیسے اوپر لایا جائیگا۔

13۔ 1988سے منتخب حکمران شراکت اقتدار کررہے ہیں۔ کیا یہی سلسلہ جاری رہے گا یا اقتدار مکمل منتقل ہو گا؟

14۔ہر شہر میں مافیائوں کا راج کیسے ختم کریں گے؟

بار بار یہ کہا گیا ہے کہ 3½سال میں حکومت ہماری تھی۔ اختیار کسی اور کا۔ اس سلسلے میں کیا کوئی نیا سسٹم طے ہوگا۔ عوام آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن مستقبل کیلئے تو ایک جامع لائحہ عمل بنانا اور ووٹرز کو اعتماد میں لینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن ہوتے ہی اقتدار ملتے ہی تو سب ٹھیک نہیں ہوجائے گا۔ 

کیا کوئی ٹاسک فورس، معیشت، آئین، زراعت، ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کے ساتھ بیٹھ کر غور کررہی ہے کہ پاکستان کو آئندہ پندرہ بیس سال کس نوعیت کے دینے ہیں۔ہر پاکستانی کی زندگی کیسے آسان کرنا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔