مقتدیٰ الصدر: انقلابی اور آزاد خیال رہنما؟

عراق کے مذہبی پیشوا مقتدیٰ الصدر نے چند ماہ قبل سیاست سے کنارہ کشی تو اختیار کرلی مگر آج بھی انہیں جوشیلے رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے۔

مقتدیٰ الصدر کا نام عراق کے ان طاقتور اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات میں شامل ہے جنہیں لاکھوں افراد کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے گزشتہ ادوار میں مختلف حکومتوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور معاملات خراب ہونے پر اپنے ہی اتحادیوں کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا،شاید یہی وجہ ہے کہ وہ موڈ بدلنے والے لیڈر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

مقتدیٰ الصدر 1974 میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ عراق کے مشہور و معروف مذہبی پیشوا محمد صادق الصدر کے فرزند ہیں۔

سال 2003 سے قبل بیرونی ممالک میں شاید بہت ہی کم لوگ مقتدیٰ کے نام سے واقفیت رکھتے تھے۔ ان کا نام اس وقت عالمی سطح پر نمایاں ہوا جب امریکا نے صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے عراق پر فوجی حملہ کیا۔ عراق کو امریکی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے 'مہدی آرمی' کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مقتدیٰ نے اس ملیشیا کی سربراہی کی اور امریکی فورسز کو منہ توڑ جواب دیا۔

اگست 2004 میں مہدی آرمی کے امریکی فوجیوں پر حملوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

امریکی فوجیوں سے جنگ جوئی کے بعد مہدی آرمی نے عراقی شہر بصرہ پر اپنا اچھا اثر و رسوخ بنالیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوری المالکی نے عراقی فوج کے ذریعے بصرہ کو مہدی آرمی سے خالی کرایا جس کے بعد الصدر تمام تر سرگرمیاں چھوڑ کر کچھ وقت کے لیے ایران چلے گئے۔ سال 2014 میں مہدی آرمی کو ' دا پیس کمپنیز' کے نام سے دوبارہ منظر عام پر لایا گیا۔

سال 2007 میں مقتدیٰ جلاوطن ہوکر ایران چلے گئے جہاں انہوں نے مذہبی تعلیم حاصل کی اور 4 سال بعد 2011 میں وطن واپسی کے لیے اڑان بھری۔

سال 2011 میں مقتدیٰ نے مالکی کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنائی لیکن یہ اتحاد کچھ وقت ہی چل سکا جس کے بعد الصدر نے حکومت سے راستے جدا کرلیے۔

2016 میں مقتدیٰ نے اس وقت کے وزیراعظم حیدر آبادی پر کرپشن کا الزام لگایا اور اس حکومت سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔2017 میں انہوں نے ایران سے اپنے تمام تر تعلقات ختم کردیے۔

مقتدیٰ نے ایک عرصے تک 'صدرست موومنٹ' کی سربراہی کی جس کا آغاز ان کے والد محمد صادق الصدر نے کیا تھا۔ اس موومنٹ کے قیام کا مقصد مستحک افراد کی مدد کرنا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صدرست موومنٹ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ سربراہان کا قتل بھی اس کی مقبولیت کو کم نہیں کرسکا۔ عوام ان کے فلاح و بہبود کے کاموں سے بہت متاثر ہوئے اور اس طرح انہیں خوب پذیرائی ملی۔ صدرست موومنٹ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد حکومتی سطح پر بھی مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔

کئی دھڑوں کے اتحاد پر ان کی سیاسی تحریک 'سائرون' 2018 کے عام انتخابات میں سب سے بڑا اتحاد بن کر اُبھرا۔ اس کامیابی کے بعد مقتدیٰ الصدر مزید طاقتور ہوگئے اور ایک مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے۔

مزید خبریں :