16 نومبر ، 2022
سری لنکا کے موجودہ صدر اور وزیر خزانہ رانیل وکرما سنگھے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مختلف ممالک سے رابطے تیز کر دیے ہیں۔
رانیل کی آئی ایم ایف، چین، جاپان اور بھارت سے قرضوں کی تنظیم نو سے متعلق بات چیت جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں بیرونی ممالک سے مدد مل جائے تو ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔
سری لنکا کو عالمی بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کی جانب سے موصول ہونے والے فنڈز کو ادویات کی خریداری سمیت بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم کا عہدہ ملنے کے بعد رانیل نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 18 ماہ میں ملکی معیشت کو بحال کردیں گے۔ اگلا سال شاید ملک کے لیے مشکل ہوگا لیکن 2024 تک معاملات بہتری کی طرف آجائیں گے۔
رواں سال سری لنکن صدر گوتا بایا راجہ پاکسے کے ملک سے فرار ہونے کے بعد جولائی کے مہینے میں وکرما سنگھے کو قائم مقام صدر لگایا گیا تھا۔ اسی ماہ سری لنکا میں صدر کے لیے انتخاب ہوا جس میں وکرما سنگھے کو اپنے مخالف امیدوار سے زیادہ ووٹ موصول ہوئے اور انہیں باقاعدہ طور پر صدر مملکت کا عہدہ مل گیا۔ انہوں نے ایسے وقت میں ملک کی کمان سنبھالی جب لنکن معیشت بیٹھ چکی تھی۔
وکرما سنگھے کی سیاسی حیثیت کیا ہے؟
73 سالہ وکرما سنگھے کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے سری لنکا کی آزادی کے لیے خوب جدو جہد کی۔ ان کے نانا وجے وردنا نے آزادی کی تحریک چلانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ ان کے دادا سی جی وکرما سنگھے بھی ایک سرکاری ملازم تھے۔
رانیل کے والد ایسمونڈ وکرما سنگھے نے ملک کی مشہور سیاسی جماعت یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں۔
1977 تک یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کو پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل تھی۔ اس وقت نوجوان رانیل وکرما نے نائب وزیر خارجہ کے طور پر حلف اٹھایا۔ جس کے بعد انہیں نوجوانوں کے امور اور روزگار سے متعلق وزارت دی گئی۔
رانیل وکرما وزیر تعلیم کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں وزیر صنعت لگا دیا گیا۔ اس دوران وکرما نے پوری دنیا میں موجود سرمایہ کاروں کو سری لنکن مارکیٹ کی جانب متوجہ کیا۔
وکرما سنگھے نے 1993 میں صدر رانا سنگھے کے قتل کے بعد پہلی بار وزیراعظم کی کرسی سنبھالی۔ سال 2000 میں انہیں دوبارہ یہ عہدہ سنبھالنے کا موقع ملا۔ رانیل نہ صرف حکومتی عہدے بلکہ قائد حزب اختلاف کی نشست بھی سنبھال چکے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن میں رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیا اور اپنے مطالبات منوائے۔
سال 2005 میں صدر مملکت کی کرسی کے لیے رانیل وکرما اور مہندا راجا پاکسے آمنے سامنے آئے لیکن شکست رانیل کا مقدر بنی۔ مہندا راجا پاکسے نے یہ انتخاب تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے جیت لیا۔
سال 2015 میں اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہوکر راجا پاکسے خاندان کی اقتدار سے چھٹی کردی اور ایک بار پھر وکرما سنگھے کو وزیراعظم کا عہدہ مل گیا۔ لیکن ٹھیک 3 سال بعد وکرما کے قریبی ساتھی اور اس وقت کے مرکزی بینک کے گورنر ارجونا مہندرا کا اسکینڈل سامنے آیا۔ یہ اسکینڈل سنگھے اور اس وقت کے صدر سری سینا کے درمیان تنازعات کی وجہ بن گیا۔
سال 2018 میں سری سینا نے وکرما سنگھے کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا اور مہندا راجا پاکسے کو ملک کا نیا وزیراعظم لگا دیا۔ لیکن مہندا کچھ دنوں کے لیے ہی اس عہدے پر براجمان رہ سکے۔ عدالتی فیصلہ وکرما کے حق میں آیا اور ان کا عہدہ دوبارہ بحال کردیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سری لنکن صدر کی جماعت یو این پی اور اتحادیوں کی حکومت کے دوران ملکی معیشت میں کافی حد تک بہتری دیکھنے کو ملی اور یہ سب بھاری ٹیکس وصولی کی بدولت ممکن ہوا۔ اس دوران نوکری پیشہ اور کم آمدن والے افراد کا خاص خیال رکھا گیا۔
رانیل وکرما کی شہرت میں کمی اس وقت دیکھنے کو ملی جب 2019 سری لنکا میں ایسٹر کے دوران دھماکوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے۔ سری لنکن عوام نے تمام تر صورتحال کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد ہونے والے انتخابات میں وکرما سنگھے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
مہندا راجا پاکسے اور ان کے بھائی گوتابایا راجا پاکسے نے حکومت میں آنے کے ساتھ ہی ٹیکس کے نظام میں رد و بدل کرتے ہوئے کورپوریٹ ٹیکسز میں کمی کردی جس کا ملکی معیشت پر برا اثر پڑا۔ آج سری لنکا کا شدید مالی بحران سب کے سامنے ہے۔