بلاگ
Time 20 نومبر ، 2022

کپتان منہ میں گھنگھنیاں ڈالے کیوں بیٹھا ہے؟

دنیا بھر میں شور مچا ہوا ہے کہ کپتان نے گھڑی چرائی۔عمران خان کے حامی گم صم بیٹھے ہیں۔ مخالفین بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ شریف، زرداری اور بھٹو خاندان کی سیاست درحقیقت دولت ہی کا طواف کرتی رہی۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا۔

شریف خاندان اپنے کاروبار قومیا لینے کے بعد بھٹو کے خلاف سیاست میں آیا۔پیپلزپارٹی کی سیاست بھی یہی تھی۔ آپ کو سرے محل جیسے اسکینڈل نظر آتے ہیں، سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں رقوم کا اسکینڈل سامنے آیا۔یوسف رضا گیلانی نے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا اور نااہل ہو گئے۔ شہباز شریف کے فرزندوالد محترم کی وزارت اعلیٰ کے دورمیں صوبے میں مرغی، انڈے اور دودھ کا کاروبار کرتے رہے۔کاروبار سے ملازمتیں پیدا ہوتیں اور معیشت کو فائدہ ہوتا ہے۔

آپ مگر رؤف کلاسرہ صاحب کے کالم پڑھئے کہ اپنا دودھ کا کاروبار جمانے کیلئے ڈاکٹر ظفر الطاف کے فلاحی پروجیکٹ کا کیا حال کیا گیا۔ اعتراض صرف ایک ہے کہ حکمراں اگر کاروبار کرے گا تو کیا و ہ ایسی پالیسیز نہیں بنائے گا، جن سے صرف اس کے کاروبار میں اضافہ ہو۔ دولت میں اضافے کی خواہش ایک ذہنی بیماری کی طرح ہوتی ہے۔ مال اکٹھا کرنے کی لت (Addiction)لگ جائے تو قبر تک اس خواہش میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔

 قرآن میں ان خواہشات کو شہوات کہا گیا ہے، جن کا کوئی آخری کنارہ نہیں’’:کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا۔ حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں‘‘۔حدیث یہ کہتی ہے کہ’’ ابنِ آدم کے پاس اگر ایک پوری سونے کی وادی ہو تو وہ دوسری کی آرزو کرے گا۔ اس کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھر سکتی ماسوائے قبر کی مٹی کے۔

‘‘ کیا ایک حکمراں کو دولت اکٹھی کرنے کا حریص ہونا چاہئےیا اپنے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کا خواہش مند۔؟ اس دنیا میں انسان صرف وہ کام ٹھیک طریقے سے کر سکتاہے، جو اس کی پہلی ترجیح ہوتے ہیں۔ باقی کام وہ اس طرح ہی کرتاہے جیسے ایک ڈرائیور کا اصل کام ڈرائیونگ ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ گفتگو بھی کر لیتا ہے، سگریٹ پیتا اور میوزک سن لیتاہے۔ تو جن لوگوں کی سب سے بڑی خواہش پیسہ اکٹھا کرنا ہو،عوامی فلاح و بہبود کیلئے وقت وہ کہاں سے نکالیں؟ خان وہ پہلا حکمراں نہیں، جس نے غیر ملکی تحائف قانون کے مطابق معمولی رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ لئے بلکہ فروخت کر دیے۔

 برسبیلِ تذکرہ باقی سب بھی فروخت ہی کرتے رہے ہیں۔ سعودی یا برطانوی حکام سے کسی کو اتنی محبت نہیں ہوتی کہ نسل در نسل ان کا تحفہ سنبھال کر رکھے۔ پھر عمران خان کی دفعہ اتنا شور کیوں؟ وجہ میں بتاتا ہوں اور شور بالکل ٹھیک مچا ہے۔ باقی حکمرانوں اور سیاستدانوں سے تو سب یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اس طرح کے کارنامے سرانجام دیتے رہیں گے۔

 عمران خان، جسے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی وجہ سے جانا جاتا ہے، اس سے کسی کو ایسی توقع نہ تھی۔ دولت کے معاملے میں اسے درویش صفت سمجھاجاتا تھا۔ پھر یہ سب کیوں ہوا؟ تحائف لئے گئے، عجلت میں بیچے گئے اور مالی فائدہ اٹھایا گیا۔ اتنی عجلت میں، جیسے کہ نوسرباز کرتے ہیں۔تحائف کو دیکھ کرکپتان آخر اتنا کیوں للچا گیا؟عمران خان کے حامی یہ کہتے ہیں کہ وہ چاہتا تو جمائما کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا کر اس کی آدھی جائیداد ہتھیا سکتا تھا، جو کہ اس نے نہ ہتھیائی۔ یہ بھی سچ ہے کہ وسیم اکرم اور رمیز راجہ کی طرح وہ کمنٹری اور کمرشلز سے بے پناہ کما سکتا تھا۔ عالمی حکمرانوں، بالخصوص برطانوی اشرافیہ سے اس کے تعلقات نہایت مؤثر ہیں اور وہ بے پناہ عالمی شہرت رکھتا ہے۔

 وہ اگرایک ذاتی کاروباری منصوبہ منظرِ عام پہ لا کر عالمی سرمایہ کاروں کو دعوت دیتا تو سو ارب روپےجمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔ پھر یہ سب ہو ا کیوں۔ کیوں تحائف اس بے پناہ لالچ کے عالم میں نوسر بازوں کے انداز میں بیچے گئے؟ جواب یہ ہے کہ عمران خان گو خود کبھی دولت اکٹھی کرنے کا شوقین نہیں رہا لیکن دوستوں اورانتہائی قریبی نجی رشتے داروں کے انتخاب میں اس نے کبھی ان خامیوں کو پرِکاہ برابر اہمیت بھی نہ دی۔ سیاسی اور نجی زندگی میں اس کا ساتھ دینے والی کوئی شخصیت ایماندار ہے یا نہیں، اس سے کبھی اسے کوئی غرض نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں اس نے بے پناہ کچرا اکٹھا کیا۔ میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ تحائف اس کے انتہائی قریبی لوگ ہتھیاتے رہے۔ یہ کہہ کر کہ قانون اجازت دیتا ہے کہ آپ بیس فیصد ادا کر کے تحفہ پاس رکھ لیں۔ کیا عمران خان توشہ خانہ اسکینڈل سے باہر نکل سکتا ہے؟

 جی ہاں، اس کا طریقہ بہت سادہ ساہے۔ اگر وہ ایک پریس کانفرنس میں اس وصیت کا اعلان کردے کہ میری موت کے بعد میری تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بیچ کر سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جائے۔ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی کہے کہ تم بھی ذرا کرو یہی اعلان۔ اب جو لوگ دولت میں اضافے کیلئے سیاست میں نازل ہوئے، وہ کہاں ایسا اعلان کر سکتے ہیں؟ کپتان کی اولاد کو اس کی دولت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کیلئے تو یہ peanutsہیں۔دولت عمران خان کیلئے ہمیشہ ایک ثانوی چیز رہی ہے۔کپتان کو مگر اب پتہ نہیں کیا ہوا کہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا ہے۔ کیا دولت اس کیلئے عزت سے زیادہ پیاری ہوگئی؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔