19 دسمبر ، 2022
عمران خان ایک تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے سیاستدان بننے والے ہیں جنہوں نے بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی توڑی اور اب ایک سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے 23 دسمبر 2022ء کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کردیا ہے۔
عمران خان پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان سے بہت متاثر ہیں۔
جنرل ایوب خان کی پشت پناہی سے 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی کیونکہ اسمبلی میں گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کا قانون منظور ہونے والا تھا۔
بعد ازاں جنرل ایوب خان نے 1958ء میں صدر اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر 1956ء کا متفقہ آئین اور اسمبلیاں توڑ کر مارشل لاء لگا دیا۔
1962ء میں جنرل ایوب خان نے نئے صدارتی نظام کے تحت نئی اسمبلیاں بنائیں جنہیں 1969ء میں دوسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے توڑ دیا۔ یحییٰ کے دور میں صرف اسمبلیاں نہیں پاکستان بھی ٹوٹ گیا۔
1977ء میں تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے اسمبلیاں توڑ دیں اور دوسرا متفقہ آئین بھی توڑد یا جو 1973ء میں منظور ہوا تھا۔
جنرل ضیاء نے 1985ء کو غیرجماعتی اسمبلی میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے اسمبلی توڑنے کا اختیار حاصل کیا اور 1988ء میں اپنی ہی بنائی ہوئی اسمبلیاں توڑ دیں۔
1990ء میں یہ کام صدر غلام اسحاق خان نے کیا۔ انہوں نے 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو اسمبلیوں سمیت فارغ کیا اور 1993ء میں نواز شریف کی حکومت کو اسمبلیوں سمیت فارغ کیا۔
1999ء میں چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ جو کام ماضی کے چار فوجی ڈکٹیٹر اور غلام اسحاق خان جیسے بیورو کریٹ کرتے رہے وہ کام 2022ء میں عمران خان کر رہے ہیں۔
انہوں نے 3 اپریل 2022ء کو تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے قومی اسمبلی توڑی تھی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے بحال کردیا۔ اب انہوں نے 23 دسمبر 2022ء کو دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا ہے اور اس اعلان کا مقصد ناصرف نااہلی بلکہ گرفتاری سے بچنا نظر آتا ہے۔
عمران خان بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑ کر پورے ملک میں انتخابات کرانا بہت مشکل ہوگا۔ وفاق اور سندھ کے علاوہ بلوچستان کی صوبائی حکومتیں فوری طور پر نئے انتخابات کے لئے راضی نہیں ہوں گی لیکن عمران خان نے اپنی آخری سیاسی چال چل دی ہے۔
اس چال کا مقصد پہلے سے موجود ایک سیاسی و معاشی بحران سے فائدہ اٹھانا اور شہباز شریف کی کمزور حکومت کو مذاکرات کے نام پر کچھ سہولتیں دینے پر راضی کرنا ہے۔
عمران خان کو صرف نئے انتخابات کی تاریخ نہیں چاہئے بلکہ وہ نااہلی اور گرفتاری سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔
وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گزشتہ سال سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کے تعلقات میں سرد مہری ضرور آئی تھی لیکن باجوہ صاحب نے مارچ میں آنے والی تحریک عدم اعتماد سے انہیں بچانے کی سرتوڑ کوششیں کیں جن کی گواہی پرویز الٰہی نے بھی دی۔
بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم والے ابھی تک خاموش ہیں کیونکہ انہوں نے باجوہ کی طرف سے ملنے والے بالواسطہ پیغامات کو نظر انداز کردیا اور آئی ایس آئی کی طرف دیکھتے رہے لیکن آئی ایس آئی نے بطور ادارہ کسی کو کوئی اشارہ کرنے سےگریز کیا۔
باجوہ نے ذاتی حیثیت سے کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران کی مدد سے عمران خان کو بچانے کی جو کوششیں کیں ان کے ناقابل تردید ثبوت اور گواہ موجود ہیں لیکن شہباز شریف اور آصف علی زرداری اس معاملے پر خاموش ہیں کیونکہ وہ یہ بحث شروع نہیں کرانا چاہتے کہ کیا باجوہ اپنے ہی ادارے کی پالیسی کی خلاف ورزی کر رہے تھے؟ وہ یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتے کہ عمران خان کو فوج کے علاوہ عدلیہ کی اہم شخصیات کی حمایت بھی حاصل تھی۔
عمران خان کی طرف سے بار بار جنرل باجوہ پر الزامات لگانے کا ایک مقصد فوج کی نئی قیادت کو بلیک میل کرنا ہے۔ وہ نام تو باجوہ کا لیتے ہیں لیکن سنا کسی اور کو رہے ہیں۔
اگر وہ 23 دسمبر کو دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیتے ہیں تو اس کے بعد گورنر نے وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشورے سے نگران وزیر اعلیٰ کا تقرر کرنا ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔
اس مرحلے کے بعد اگر نگران حکومتیں قائم ہو جاتی ہیں تو کچھ ہی عرصے کے بعد عمران خان ناصرف نگراں حکومتوں اور چیف الیکشن کمیشن پر نت نئے الزامات لگائیں گے بلکہ وہ فوج پر بھی ایک دفعہ پھر شکوک شبہات کا اظہار کریں گے۔
عمران خان نے مارچ کے بعد سے جارحانہ سیاست اختیار کر رکھی ہے جبکہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی دفاعی انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔
اتحادیوں کے باہمی ورکنگ ریلیشن شپ کا حال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے وزیر پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک قوم کو خوشخبری دیتے ہیں کہ روس نے پاکستان کو سستے نرخوں پر تیل بیچنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری امریکہ میں بیٹھ کر اپنے ہی ساتھی وزیر کے دعوے کی تردید کر دیتے ہیں۔
بلاول نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو گجرات کاقصائی قرار دے کر کوئی نیا کام نہیں کیا۔ مودی کو ہٹلر تو عمران خان بھی قرار دیا کرتے تھے۔ نیا کام یہ ہے کہ بلاول کے بیان سے عمران خان کے اس دعوے کو تقویت ملی کہ وہ ایک امپورٹڈ حکومت کے وزیر خارجہ ہیں جس کی پہلی ترجیح پاکستانی عوام کے لئے ریلیف حاصل کرنا نہیں بلکہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔
بلاول کے پاس پاکستانی عوام کو بتانے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن اگر وہ بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار رہے تو عمران خان کی غلط بیانیوں کا کبھی بھانڈا نہیں پھوڑ پائیں گے۔
بلاول صاحب اب قوم کو بتا دیں کہ وہ کون تھا جس نے انہیں کہا کہ اپنے والد کو علاج کے لئے بیرون ملک بھجوا دیں؟ بلاول صاحب یہ بھی بتائیں کہ جب باجوہ نے انہیں تحریک عدم اعتماد واپس لینے کے لئے کہا تو ان کا کیا جواب تھا اور اس کے بعد باجوہ ان سے ناراض کیوں رہنے لگے؟
پاکستان کی سیاست اور صحافت پر اس وقت جھوٹ کا غلبہ ہے۔ اس غلبے کو توڑنا سیاستدانوں کا بھی کام ہے۔ ہم کمزور صحافی تھوڑا سا سچ بول دیتے ہیں تو ہمیں ٹی وی اسکرین سے غائب کردیا جاتا ہے اور ہمارے کالم بھی بند کرا دیئے جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی نہیں ہے کیونکہ پارلیمینٹ اور عدلیہ کمزور ہیں۔
پارلیمینٹ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی تو عدلیہ آئین و قانون کے دفاع کے قابل بنے گی اور جب عدلیہ آئین کی بالادستی کو یقینی بنائے گی تو پھر سچ بولنے والوں پر پابندیاں لگیں گی نہ انہیں عبرت کی مثال بنایا جائے گا۔
پاکستان کی سیاست و صحافت پر جھوٹ کا غلبہ نہ توڑا گیا تو اسمبلیاں وقت بے وقت ٹوٹتی بنتی رہیں گی اور جمہوریت کی اوقات ایک تماشے کے سوا کچھ نہ رہے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔