08 دسمبر ، 2012
کراچی…اختر علی اختر…لندن سے آئے ہو ئے سینئر صحافی اور ممتاز براڈ کاسٹر آصف جیلانی نے کہا ہے کہ برطانیہ میں اردو کی شروعات بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد ہوئی۔ اس طرح سے دوسری عالمی جنگ کے بعد اردو لندن میں پہنچی اور آج بر طانیہ میں اردو کو وہ حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بر طانیہ کے قصر شاہی میں چو بیس سالہ منشی عبدالکریم کی ذہانت سے ملکہ برطانیہ بہت متاثر ہوئیں اور وہ گاہے بگاہے منشی عبد الکر یم سے اردو سنتی رہیں۔ وہ پانچویں عالمی اردو کانفر نس کے تیسر ے روز ”ذرائع ابلاغ۔چند غور طلب پہلو“کے موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 1961ء میں عنا یت اللہ مشرقی کا اخبار لندن سے شائع کیا گیا۔اس سے وہاں کے قارئین کوبڑی تفصیل سے معلومات میسر آیا کر تی تھیں۔حبیب الرحمن نے برمنگھم سے اخبار ایشیا ء بھی نکالا۔1971ء میں روزنامہ جنگ کے پر چے لندن بھیجے جاتے رہے۔ پھر جنگ لندن کا اجراء کیا گیا۔مسعود اشعر نے کہاکہ اب تو استخارہ بھی ٹی وی پر فوراً پیش کر دیا جا تا ہے۔لیپ ٹا پ پر استخارہ نکال کر سامعین کو بتا یاجاتا ہے کہ یہ ہو جا ئے گاوہ ہو جا ئے گااور دیکھنے سننے والا اس سے بڑا مر عوب بھی نظر آتا ہے جبکہ سب کو معلوم ہے کہ استخارہ نکالنے کے لیے کتنا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سب ماضی میں ایک مشن کے تحت کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور تھے لیکن اب پورا میڈیامستحکم ہوگیا ہے، انگریزی اور اردو اخبارات کا میعار بالکل الگ الگ ہے،ہندوستان کے جو اخبارات ہیں ان کا معیار قدرے بہتر ہے،اچھا کاروبار تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن انہوں نے علم و ادب کو فروغ دیا ہے، ہمیں بھی کچھ تو سوچنا پڑے گا کہ ہم عوام کو کس طرف لے جارہے ہیں۔ ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے کہا کہ ہمارے سندھی اخبارات ہمارے معاشرے میں جو شعور پیدا کر رہے ہیں وہ دیگر اخبارات نہیں کر رہے، ہمیں شہروں سے نکل کر سندھ کے دیگر علاقوں کی جانب بھی توجہ دینا ہو گی کیونکہ سندھی اخبارات اپنے گاوٴں اور دیہاتوں کی چھوٹی چھوٹی خبر یں بھی نمایاں طور پر شائع کر تے ہیں۔ ممتاز صحافی اور کالم نگار غازی صلاح الدین نے کہا کہ ادب اور ذرائع ابلاغ میں فرق ہو نا چاہیے۔ ماس میڈیاکو عوامی سطح پر ہونا چاہیے اور یہ کو ئی بری بات نہیں ہے۔ پاکستانی معا شرہ آج انتہا پسند ی کا شکار ہے میڈیا کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ سچ بولے، اب ریٹنگ کو بڑ ھا نے کے لیے میڈ یا نے اپنے معیار کوگر ا دیا ہے۔ایک زمانے میں پڑھے لکھے لوگ محدود تھے اور میڈیا بھی اتنا ایڈوانس نہیں ہوا تھا، ہمارے یہاں اخبارات کی کو الٹی کی انتہا ئی کمی ہے اور اب سو شل میڈیا سے خبریں مل جا تی ہیں،دنیا کے معاشرے میں تبدیلیوں کا سبب بھی ہمارا میڈیا ہے،میڈیا میں اب مکالمہ نہیں رہا صرف ریٹنگ کے معاملے نے چیزوں کو خراب کر دیا ہے۔ سنیئر صحافی اخلاق احمد نے کہا کہ میں اٹھا ئیس برس سے صحافت میں ہوں مگر تین سال سے مارکیٹنگ کے شعبے سے منسلک ہوں اس دوران عوام کی جو رائے میرے سا منے آئی وہ نا قابل اشاعت ہے۔گرما گرم بحث میں حصہ لیتے ہو ئے سنیئر صحافی احفا ظ الر حمن نے کہا کہ میں نے حاضرین کی طرح اس خوبصورت بحث کو سنااور پھر سوچا کہ ہم کچھ اور کیوں نہیں، صحافت ہی کیوں اختیار کی، اس سے ہم کیا پیغام دینا چا ہتے ہیں، کچھ پیشے معاشرے کے لیے بہت ضروری ہیں جو معاشرے کو پروان چڑھاتے ہیں،جن میں استاد، ڈاکٹر، صحافی شامل ہیں، فنکار گلی کے ہر کردار کے ڈائیلاگ مختلف ہوتے ہیں،صحافت میں سچا ئی انتہا ئی ضروری ہو تی ہے، ٹیچر اگر ایمانداری سے نہیں پڑ ھا تا ہے تو وہ معاشرے کو بلاک کر تا ہے۔معروف صحافی انور سین رائے نے احفاظ الرحمن کی کچھ باتوں سے اختلا ف کیا۔ ممتاز ادیب وسعت اللہ خان نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ ڈرامے اور میڈیا کا تعلق کیا بنتا ہے؟ ذرائع ابلاغ کی زبان صیحح ہے یا غلط؟ کیا وہ معاشرے کو سنوار رہا ہے یا بگاڑ کا باعث بنتا جا رہا ہے،میڈیا خود بخود نہیں پیدا ہو گیا،اسے باقا عدہ لا یا گیاہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ میڈ یا سے آج ہر شخص دو چار ہے اور میڈیا ہماری زندگی میں شامل ہو چکا ہے، ادب اور ذرائع ابلاغ کے درمیان لا ئن کھینچنابڑامشکل ہے ،ہمارے یہاں بھی اخبارات مولانا ظفر علی خان اور راشد الخیری نے نکالے۔ اس وقت کے ادیبو ں اور قلم کاروں نے ادب کو فروغ دیااور ادب فلم و ٹی وی کے ذریعے بھی پروان چڑھتا رہا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ذرائع ابلاغ ادیبوں کے ہاتھوں ہی وجود میں آئے ہیں۔ ریڈیو اور فلمی دنیا کے علاوہ پی ٹی وی کو بھی ادیبوں نے ہی پروان چڑھایا ہے اور جب تک ادیب و شاعر ان اداروں میں رہے اس وقت تک ان اداروں میں ادب موجود رہا۔ ممتازادیب سرمد صہبائی نے کہا کہ اب سب کچھ میڈیا کو دے دیا گیا ہے اس لیے اس نے بطور کمرشل اسے اپنانا شروع کر دیا ہے،ہمارے ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیاں آگے بڑ ھتی جا رہی ہیں،اب یہ ہمارے ادیب ، شاعر، کالم نگاروں پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے ڈیل کرتے ہیں۔ اس موقع پر گفتگو میں حصہ لیتے ہو ئے آرٹس کونسل کے صدرمحمد احمد شاہ نے کہا کہ اب تو اخبارات کو تفصیل سے پڑ ھنے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے کیونکہ بریکنگ نیوزسب سے پہلے سامنے آجا تی ہے، ہمیں میڈیا کے حوالے سے فوری معلومات ٹی وی سے میسر آرہی ہے۔ آخر میں مسعود اشعر نے کہا کہ میڈیا مشن کے تحت کام نہیں کررہا بلکہ جو چیز بکتی ہے اسی پر کام ہو رہا ہے۔