Time 02 جنوری ، 2023
پاکستان

اسلام آباد بلدیاتی انتخابات کیس: وفاق اور الیکشن کمیشن کی انٹراکورٹ اپیلیں سماعت کیلئے منظور

آپ تیاری کرکے آئیں، آپ ابھی تک بے تکی باتیں کر رہے ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ۔ فوٹو فائل
 آپ تیاری کرکے آئیں، آپ ابھی تک بے تکی باتیں کر رہے ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ۔ فوٹو فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے وفاق اور الیکشن کمیشن کی انٹراکورٹ اپیلیں سماعت کے لیے منظور کر لیں۔

اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو کرانے کے عدالتی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ اس عدالت کے فیصلے کو سنگل بینچ نے مدنظر نہیں رکھا، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ جب الیکشن کمیشن کو یہ معاملہ بھیجا گیا تو کیا ہوا؟

میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 27 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے 31 دسمبرکے الیکشن ملتوی کرنے کا حکم دیا، الیکشن کمیشن نے 31 دسمبر کو بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کے آرڈر میں وجوہات بتائیں، سنگل بینچ نے ان وجوہات کو مدنظر ہی نہیں رکھا۔

ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 28 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ انتخابات ملتوی کر چکے جبکہ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 28 دسمبر کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ حتمی ہے، ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوچکا ہے، صدر نے اس پر دستخط نہیں کیے اور واپس بھجوا دیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک بل کی بنیاد پر تو الیکشن ملتوی نہیں ہو سکتا تھا، میں اس کیس کو کل یا پرسوں کے لیے رکھتا ہوں، آپ تیاری کرکے آئیں، آپ ابھی تک بے تکی باتیں کر رہے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جسے عدالت ہدایات نہیں دے سکتی جبکہ ایڈوکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کرانے کے لیے صرف چند گھنٹوں کا وقت دیا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں ڈویژن بینچ نے کہا الیکشن کمیشن کو ہدایات نہیں دے سکتے، جسٹس محسن اختر کیانی کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا ایک ماہ میں فیصلہ کرنےکی ہدایت تھی، ڈویژن بینچ نےاس ہدایت پر کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ہدایات نہیں دی جا سکتیں، اگر عدالت صرف آپ کا آرڈر کالعدم قرار دے دیتی تو کیا اثرات ہوتے؟

ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ پھر ہم نے الیکشن کرانے کے انتظامات کرنے تھے، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا پھربھی آپ 31 دسمبر کو ہی الیکشن کرانے کے پابند نہ ہوتے؟

ڈی جی لاء نے کہا کہ الیکشن کمیشن خودمختار آئینی ادارہ ہے جو الیکشن شیڈول کا خود اعلان کرتا ہے، ہم نے زمینی حقائق بھی مدنظر رکھنے ہوتے ہیں،آر اوز کی تعیناتی کرنا ہوتی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پوچھا کہ کہ کسی بھی سبب الیکشن ملتوی ہو جائیں تو دوبارہ کرانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ جس پر ڈی جی لاء نے بتایا کہ اس صورت میں پولنگ کی نئی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے دوبارہ استفسار کیا کہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ کی صورت میں کتنے دن چاہئیں؟ جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پھر ہم 120 دنوں میں الیکشن کرا سکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے ووٹرز لسٹوں کے نقائص اور غلطیاں بھی دور کرنی ہوتی ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم مختصر وقت کے باعث وفاق کا جواب داخل نہیں کر سکے تھے جبکہ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس میں عبوری ریلیف کے لیے متفرق درخواست بھی دائر کی ہے، عدالت سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر دے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر الیکشن نہیں ہوئے اور وقت گزر گیا تو ہم وہ آرڈر کیسے معطل کریں، آج موجودہ قانون میں اب الیکشن کمیشن نے نیا شیڈول ہی دینا ہے نا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اگر101 یوسیز میں الیکشن ہوتا ہے تو پھر ہمیں نیا شیڈول دینا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن اور وفاق کی انٹراکورٹ اپیلیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق اور الیکشن کمیشن کو 9 جنوری کے لیے نوٹسز جاری کر دیے۔

مزید خبریں :